ایم کیو ایم پاکستان نے سیاسی ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر چیلنج کردیا

اپ ڈیٹ 03 نومبر 2021
سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں ایم کیو ایم نے ایڈمنسٹریٹرز کے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دینے کی بھی استدعا کی — فائل فوٹو: فیس بک
سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں ایم کیو ایم نے ایڈمنسٹریٹرز کے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دینے کی بھی استدعا کی — فائل فوٹو: فیس بک

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے سندھ ہائی کورٹ میں کراچی، حیدر آباد اور سکھر کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر سیاستدانوں اور ’ہینڈ پِک بیوروکریٹس‘ کے تقرر کے خلاف درخواست دائر کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما سینیٹر فیصل سبزواری کے توسط سے دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 کی روشنی میں منتخب کونسل کے چیف ایگزیکٹو کے اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے سیاسی اور منتخب بیوروکریٹس کے بطور ایڈمنسٹریٹر کردار کو محدود کیا جائے۔

درخواست میں وزیر بلدیات، ایڈمنسٹریٹرز، سندھ پبلک سروس کمیشن اور دیگر صوبائی حکام کے علاوہ ایم کیو ایم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی فریق کے طور پر شامل کیا۔

درخواست گزار نے سندھ ہائی کورٹ سے ایڈمنسٹریٹرز کے تمام اقدامات کو کالعدم کرنے اور ایسے تقرر کو غیر قانونی، غیر آئینی اور دائرہ اختیار کے باہر قرار دینے کی بھی استدعا کی۔

مزید پڑھیں: نئی مردم شماری کے بعد بلدیاتی انتخابات کراسکتے ہیں، سندھ کا الیکشن کمیشن کو جواب

انہوں نے کہا کہ فریقین کو منتخب مقامی حکومتوں کی غیر موجودگی میں ایڈمنسٹریٹرز کے کردار کا تعین کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ الیکشن ایکٹ کے تحت نئی منتخب کونسل کے قیام تک نگراں کے انتظام کا کہا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ متعلقہ صوبائی حکام کے پاس نگراں حکومت کے طور پر محدود اختیارات ہیں اور انہیں بلدیاتی انتظامیہ کے تحت کام کرنے والے ہسپتالوں، اسکولوں اور ڈسپنسریوں کا کنٹرول منتقل کرنے سمیت بڑے مالی اور انتظامی فیصلے لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں ضروری ترامیم کے بعد متعلقہ حکام کو صوبے میں بلدیاتی انتخابات فوری طور پر کرانے کی ہدایت کی جائے۔

درخواست گزار نے سندھ کونسلز یونیفائیڈ گریڈ سروس (ایس سی یو جی) ملازمین کو کراچی، حیدر آباد اور سکھر سمیت شہری سندھ کی کونسل میں شامل کرنے کے نوٹی فکیشن کو بھی چیلنج کیا اور فریقین کو سندھ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بھرتی کی پالیسی کو پورا کرنے اور شہری، دیہی اور علاقائی کوٹہ جسے 18ویں ترمیم کے تحت آئین میں تحفظ دیا گیا تھا، کو برقرار رکھنے کی ہدایت کی درخواست کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایس سی یو جی کے تمام ملازمین کو ان کے علاقوں، اضلاع یا پرانے محکموں میں ان کے ابتدائی تقرر کی بنیاد پر ان کی حیثیت پر واپس بھیجنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلدیاتی انتخابات میں تاخیر: الیکشن کمیشن نے سندھ کے اعلیٰ حکام کو طلب کر لیا

درخواست گزار نے فریقین کے لیے ایک حکم امتناع کا بھی مطالبہ کیا کہ وہ نئے منتخب بلدیاتی حکومت کے چارج سنبھالنے تک کونسل کے موجودہ ملازمین اور افسران کو واپس نہ بھیجیں یا ان کی تنزلی نہ کریں۔

درخواست دائر کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر فیصل سبزواری اور خواجہ اظہارالحسن نے کہا کہ ایک سیاسی ایڈمنسٹریٹر کے تحت آزادانہ اور منصفانہ بلدیاتی انتخابات ممکن نہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف نے بھی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

پی ٹی آئی نے اپنے رہنما خرم شیر زمان اور چند دیگر اراکین صوبائی اسمبلی کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ میں صوبائی حکام اور ای سی پی کو صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے اور عبوری مدت کے لیے غیر جانبدار انتظامیہ/منتظمین کا تقرر کرنے کی ہدایت کی درخواست کی تھی۔

درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ صوبے میں منتخب بلدیاتی حکومت کے نمائندوں کی مدت اگست 2020 میں ختم ہوگئی تھی اور فریقین قانون کے تحت فراہم کردہ 120 دنوں کے بعد بھی بلدیاتی انتخابات کرانے میں ناکام رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں