فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

جو مسئلہ آج کل پبلک میں زیر بحث ہے، وہ صوبائی حکومتوں کے درمیان، لوکل گورنمنٹ کے نمائندہ کردار اور اس کے اختیارات کو مختصر کرنے پر قابل ذکر اتحاد ہے- یہ جمہوری اور موثر گورننس کے لئے لوگوں کے حق کے لئے براہ راست خطرہ ہے-

2013 میں اس بات پر بحث کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ ملک کا جمہوری نظام کا تصور ایک وسیح پیمانے پر مشتمل نمائندہ اور باضابطہ اختیارات کی حامل لوکل گورنمنٹ کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا-

اس نکتہ پر قومی اتفاق راۓ بہت پہلے حاصل کیا جا چکا ہے لیکن جیسے جیسے ایک مؤثر لوکل گورنمنٹ کے لئے عوام کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، صوبائی حکام کی طرف سے ضلح اور نچلی سطح پر اختیارت کی منتقلی کے لئے مزاحمت سخت ہوتی جا رہی ہے-

لوکل باڈیز پر بحث کا موجودہ فیز کا آغاز سنہ 2010 سے ہوا جب صوبائی حکومتوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر مشرف سکیم کو ختم کر دیا- تب سے یہ لوگ ایک نئے لوکل گورنمنٹ فارمولے ایجاد کرنے میں مصروف ہیں- لیکن بجاۓ اس کے کہ لوگوں کی خواہش کے مطابق ایک ڈھانچہ تیار کرنے اور لوکل سطح پر ایک ہم عصر گورننس کے مطالبات پر غور کریں، یہ لوگ سنہ 1979 کے ضیاء الحق کے بناۓ گۓ قانون میں جوڑ توڑ میں مصروف ہیں-

بلوچستان نے 1979 کے قانون کی تبدیل شدہ شکل کو اپنایا ہے، خیبر پختون خواہ بھی اسی کے نقش قدم پر چل رہی ہے گو کہ سننے میں آیا ہے کہ آخرالذکر ایک نۓ بل پر بھی کام کر رہا ہے- سندھ دو خاکوں پر کام کر رہا ہے- ایک ان دنوں کے لئے جب ایم کیو ایم اشتراکی پارٹنر ہو گی اور دوسری جب وہ نہیں ہوگی- اور پنجاب 1979 کے قانون کی از سر نو مرمت کر رہا ہے- ضیاء الحق کے اس کارنامے کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوکل گورنمنٹ کو 2001 کے قانون کے مقابلے میں پیسا اور اختیارات کم دیتا ہے-

معاملات تب سر پر پہچے جب سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں سے کہا کہ وہ اپنی قانون سازی پندرہ اگست تک مکمل کر لیں تا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ستمبر میں لوکل گورنمنٹ الیکشن کا انقعاد کر سکے-

اب ای سی پی کا کہنا ہے کہ قانون سازی مکمل ہونے کے بعد الیکشن نوے دن سے پہلے نہیں ہو سکتے- ممکن ہے الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کے لئے وقت مانگنے کے کچھ جواز ہوں لیکن صوبائی حکومتوں کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے- ان کے پاس ذہنی طور پر تیار ہونے کے لئے تین سال تھے-

جب پنجاب حکومت نے صوبائی اسمبلی میں ایک نیا بل پیش کیا تو لوکل گورنمنٹ پر نئی اور وسیع بحث کے دروازے کھل گۓ-

اس بحث کے صحتمند پہلو، سول سوسائٹی ارگنائزیشنز کی طرف سے دکھایا گیا جوش و خروش ہے جس میں بل پر تفصیلی تنقید کی گئی ہے اور حکام کی طرف سے اس تنقید کو سننے کی رضامندی ہے-

یہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس کا آگے تک چلنا ممکن نہیں کیونکہ ایک مؤثر لوکل گورنمنٹ سے صوبوں کی عداوت پر قابو پانا آسان کام نہیں-

تاہم، لوگوں کو ایک مناسب لوکل گورنمنٹ اداروں کا ڈھانچہ بنا کر پیش کیا گیا ہے، اور پنجاب بل کے معیار کا اندازہ لگانے کے لئے اسے دیگر صوبوں کے منصوبوں پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے- سول سوسائٹی ارگنائزیشن نے پنجاب حکومت سے آئین کے آرٹیکل 140 (a ) کا من وعن احترم کرنے کی درخواست کی ہے، جو قانون کی طرف سے قائم کرنے کا پابند بناتا ہے "ایک لوکل گورنمنٹ نظام بنانے اور لوکل گورنمنٹ کے منتخب نمائندوں کو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داریاں تفویض کرنے کے لئے" (اس پر زور دیا گیا ہے )-

موجودہ بل اس آرٹیکل سے اختلاف کرتا ہے کیوں کہ صوبائی حکومت بہت سی جگہوں پر لوکل گورنمنٹ پر اپنا کنٹرول رکھتی ہے-

سول سوسائٹی کا ایک عام مطالبہ یہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات پارٹی کی بنیاد پر ہونے چاہییں- پنجاب کا پیش کردہ خاکہ اس کی ضمانت نہیں دیتا-

2006 کے چارٹر آف ڈیموکریسی پر پی ایم ایل-این کے مضبوط ایمان کو مدنظر رکھتے ہوئے، پنجاب گورنمنٹ کو اس چارٹر کا آرٹیکل (10) یاد دلایا گیا، جس میں لکھا ہے "لوکل باڈیز الیکشن، اپنے اپنے صوبوں میں، پارٹی کی بنیاد پر صوبائی الیکشن کمیشن کے تحت ہوں گے اور لوکل باڈیز کو آئینی تحفظ دیا جاۓ گا تا کہ انہیں خودمختاری دی جاۓ اور وہ اپنی اسمبلی اور ساتھ ہی ساتھ قانونی عدالتوں کے ذریعہ لوگوں کے آگے جوابدہ بھی ہوں"- (اس چارٹر کا اگلا آرٹیکل یہ کہتا ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات، جنرل انتخابات کے تین ماہ بعد منعقد کئے جائیں گے-)

پنجاب بل پر کچھ اعتراضات جو سول سوسائٹی نے اٹھاۓ ہیں:

یونین کونسل کی رکنیت، کارکردگی دکھانے کے لئے بہت چھوٹی ہے- 2001 کے مقابلے میں خواتین، مزدوروں، اور اقلیتوں کے لئے سیٹس کم کر دی گئی ہیں؛ اھم دفاتر بلاواسطہ انتخابات کے ذریعہ بھرے جائیں گے؛ تعلیم اور صحت کے لئے علیحدہ ضلعی حکام کے لئے اقدامات، منتخب لوکل گورنمنٹ کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے؛ عہدیدار صرف اپنی اسمبلی کے آگے جوابدہ ہونے چاہییں؛ اقتدار کی منتقلی کے اصول، انتظامیہ اور ساتھ ساتھ مالیات، کی خلاف ورزی کی گئی ہے-

ان اعتراضات میں وزن ہے اور ان کے منصفانہ حل میں ناکامی، صوبائی حکومت کی بدنیتی اور لوکل گورنمنٹ نظام کو اسکی اصلی روح کے ساتھ تسلیم کرنے میں بے دلی کو ظاہر کرے گا-

اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ 1979اور 2001 کے قوانین کے اندر پسندیدہ اختیارات کی تلاش بند کی جاۓ اور لوکل گورنمنٹ کو انتظامی آلہ جات کے ساتھ بیوروکریسی کے کرتب کے طور پر نہیں، بلکہ ایک سیاسی ضرورت کے طور پر دیکھا جاۓ-

مقصد ایک ایسے لوکل گورنمنٹ نظام کی تخلیق ہو جو اعلیٰ سطح پر جمہوری ڈھانچے میں اپنا کردار ادا کر سکے- جمہوری طریقے سے منظم اور ذمہ دار مقامی حکومتوں کو ریاستی اتھارٹی کی بنیاد کو وسیع کرنا چاہئے، مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنانا چاہیے اور ماوراۓ آئین مداخلتوں کے خلاف ریاست کے تحفظ کو مضبوط بناۓ-

یہ مستقبل کے لیڈروں کی تربیت گاہ ہیں لیکن اگر ان باڈیز کے لئے منتخب نمائندوں کو مناسب اختیارات کی پیشکش نہ کی گئی تو یہ اپنا اھم کردار ادا نہیں کر سکتے-

لوکل اسمبلی، چھوٹے پارلیمنٹ کی طرح ہوتی ہیں اور ان کے ارکان کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اپنی پارٹی کے فرمانبردار رہتے ہوے انہیں اپنے اداروں کے ساتھ کس طرح وفادار رہنا چاہیے- یہ معیاری لیڈرشپ مہیا کر سکتے ہیں اگر یہ مناسب اختیارات اور مادی وسائل کی حامل لوکل گورنمنٹ کے ذریعہ لوگوں کے خدشات سے نمٹنا سیکھ لیں، جو صرف اپنے انتخاب کنندہ کے آگے جواب دہ ہوں-


ترجمہ: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں