بائیڈن کو فتح کی مبارکباد پر ٹرمپ، سابق اسرائیلی وزیراعظم سے ناراض

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2021
ڈونلڈ ٹرمپ اور بینجمن نیتن یاہو 2017 سے 2021 تک چار سال اقتدار کے دوران قریب ترین سیاسی حلیف تصور کیے جاتے تھے— فائل فوٹو: اے پی
ڈونلڈ ٹرمپ اور بینجمن نیتن یاہو 2017 سے 2021 تک چار سال اقتدار کے دوران قریب ترین سیاسی حلیف تصور کیے جاتے تھے— فائل فوٹو: اے پی

امریکی مصنف نے اپنی نئی کتاب میں انکشاف کیا ہےکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن کو صدارتی انتخابات میں فتح پر مبارکباد دینے پر اپنے پرانے اتحادی اور سابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی وفاداری کو مشکوک قرار دے دیا۔

جمعہ کو ایگزیوس ویب سائٹ پر کتاب کے مصنف بارک ریویڈ نے لکھا کہ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں امریکا-اسرائیل تعلقات کا احاطہ کرنے والی کتاب کے سلسلے میں کیے گئے انٹرویو میں نیتن یاہو کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

مزید پڑھیں: اسرائیل میں بھی تبدیلی کی حکومت یا صدی کا سب سے بڑا فراڈ

ریویڈ نے لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور بینجمن نیتن یاہو 2017 سے 2021 تک چار سالہ اقتدار کے دوران قریب ترین سیاسی حلیف تصور کیے جاتے تھے۔

انہوں نےنیتن یاہو کی جانب سے بائیڈن کو کی گئی کال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تب سے سابق اسرائیلی وزیراعظم سے بات نہیں کی ہے۔

ریویڈ نے کہا کہ انہوں نے ٹرمپ کا ان کی آنے والی کتاب کے لیے دو بار انٹرویو کیا اور ان انٹرویوز میں وہ مسلسل نیتن یاہو پر تنقید کرتے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے لیے آخری دھچکا وہ تھا جب نیتن یاہو نے منتخب صدر بائیڈن کو انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دی حالانکہ ٹرمپ انتخابی نتائج پر شکوک کا اظہار کررہے تھے۔

نیتن یاہو نے بائیڈن کی جیت واضح ہونے کے تقریباً 12 گھنٹے بعد امریکی صدر کو مبارک باد پیش کی تھی تاہم دوسری جانب ٹرمپ نے الیکشن میں ہار تسلیم نہیں کی اور کسی ثبوت کے بغیر یہ دعویٰ کیا تھا کہ بائیڈن نے انتخابات میں دھاندلی سے فتح حاصل کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر کرپشن کا الزام، فرد جرم عائد

دیگر غیر ملکی رہنماؤں نے اسرائیلی رہنما سے بھی پہلے بائیڈن کو مبارک باد دی تھی لیکن ٹرمپ سےنیتن یاہو کی یہ حرکت ہضم نہ ہوئی۔

ریویڈ کے مطابق ٹرمپ نے کہا کہ نیتن یاہو پہلے شخص تھے جنہوں نے بائیڈن کو مبارک باد دی حالانکہ میں نے ان کے لیے کسی بھی دوسرے فرد سے زیادہ اہمیت دی۔

انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو خاموش رہ سکتے تھے، انہوں نے ایک خوفناک غلطی کی ہے، میں اب بھی انہیں پسند کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے وفاداری بھی پسند ہے۔

ریویڈ نے کتاب میں دعویٰ کیا کہ ٹرمپ اس بات پر بھی ناخوش تھے کہ نیتن یاہو نے امریکی صدر کے عہدے پر رہنے میں ان کی مدد نہیں کی۔

دوسری جانب نیتن یاہو نے جمعہ کو ایک بیان میں ایگزیوس کی رپورٹ کا جواب دیتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

مزید پڑھیں: فلسطین نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اسرائیل، امریکا کو خبردار کردیا

انہوں نے کہا کہ میں صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل اور اس کی سلامتی کے لیے بڑے پیمانے پر کیے گئے تعاون کو سراہتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اسرائیل اور امریکا کے درمیان مضبوط اتحاد کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہوں اور اس لیے آنے والے صدر کو مبارکباد دینا میرے لیے بہت اہم تھا۔

واضح رہے کہ حالیہ انتخابات میں شکست کے باوجود مستقبل میں بھی دونوں سابق رہنما اقتدار میں واپس آسکتے ہیں۔

ٹرمپ ریپبلیکن پارٹی کے غیراعلانیہ رہنما ہیں اور 2024 میں صدارتی انتخاب لڑنے کا عزم ظاہر کیا ہے جبکہ رواں سال اقتدار سے محروم ہونے والے نیتن یاہوفی الحال اسرائیل کی کابینہ میں قائد حزب اختلاف ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں