کرائسٹ چرچ حملہ: پاکستان کے نعیم راشد کیلئے نیوزی لینڈ کا اعلیٰ ترین اعزاز

16 دسمبر 2021
نعیم راشد اور ان کے بیٹئ طلحہ حملے میں شہید ہو گئے تھے— فائل فوٹو: بشکریہ فیس بُک
نعیم راشد اور ان کے بیٹئ طلحہ حملے میں شہید ہو گئے تھے— فائل فوٹو: بشکریہ فیس بُک

نیوزی لینڈ نے 2019 میں مساجد پر حملے کے دوران اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کو بچانے کے لیے پاکستانی باشندے نعیم راشد اور افغان نژاد عبدالعزیز کو نیوزی لینڈ کے بہادری کے اعلیٰ ترین اعزاز ’’نیوزی لینڈ کراس‘‘ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق مارچ 2019 میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں 2 مساجد النور مسجد اور لین ووڈ میں دہشت گردوں نے اس وقت داخل ہوکر فائرنگ کی تھی جب بڑی تعداد میں نمازی، نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں موجود تھے۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں دہشت گرد حملے، 49 افراد جاں بحق

مذکورہ واقعے میں 51 نمازی شہید ہو گئے تھے جس میں پاکستانی شہری نعیم راشد اور ان کے 22 سالہ بیٹے طلحہ نعیم سمیت 9 پاکستانی شہری بھی شہید شامل تھے۔

نعیم راشد دہشت گرد نے مسلح دہشت گرد سے لڑنے کی کوشش کی اور اس دوران دہشت گرد کی فائرنگ سے شہید ہوگئے تھے۔

ایوارڈ وصول کرنے والے ایک اور شخص عبدالعزیز افغان شہری ہیں اور انہوں نے حملہ آور کا پیچھا کیا تھا۔

بہادری کے اس اعزاز کو 1999 میں متعارف کرایا گیا تھا اور دہشت گرد حملے سے قبل صرف دو افراد یہ اعزاز دیا گیا تھا اور یہ نیوزی لینڈ کے اعلی ترین فوجی اعزاز وکٹوریا کراس کا غیر عسکری مساوی اعزاز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کرائسٹ چرچ دہشتگردی: وزیر اعظم کا نعیم رشید کیلئے قومی ایوارڈ کا اعلان

اس کے علاوہ دو پولیس افسران سمیت 8 افراد کو بھی بہادری کے تمغے دیے گئے ہیں جنہوں نے بندوق بردار حملہ آور برینٹن ٹیرنٹ کو اس وقت پکڑ لیا جب وہ ایک کار میں جائے حادثہ سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈ آرڈرن نے اعزاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اعزاز پانے والوں کی بہادری نے ممکنہ طور پر ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کو روکا تھا، نیوزی لینڈ کے ان باشندوں نے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کیا اور اس کے لیے ہم ان کے مشکور ہیں۔

پاکستانی نژاد نعیم راشد کی بیوہ امبرین نعیم نے میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر نے پوری زندگی دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دی، وہ ایک بہادر، بہت رحم دل اور محبت کرنے والے شخص اور اسلام کے حقیقی پیروکار تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اعزاز نفرت کے خلاف کھڑا ہوجانے والے ہر امن پسند شخص کے لیے ہے، یہ دہشت گردی کے تمام متاثرین کے لیے ہے، صرف کرائسٹ چرچ کے دہشت گرد حملے کے متاثرین کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں دہشت گردی سے متاثرین کے لیے بھی ہے۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ دہشتگردی: پاکستان میں سوگ، قومی پرچم سرنگوں

یہ اعزاز آئندہ سال کے آغاز میں ہونے والی ایک تقریب میں ان افراد کو پیش کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال جج نے حملہ آور برینٹن ٹیرنٹ کے عمل کو غیرانسانی قرار دیتے ہوئے ملزم کو تاعمر قید کی سزائی سنائی تھی اور نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی کو یہ سزا سنائی گئی تھی۔

نعیم رشید کون ہیں؟

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے نعیم رشید پیشے کے اعتبار سے بینکر تھے اور وہ 2009 میں نیوزی لینڈ گئے تھے جہاں انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی تھی۔

ان کی اہلیہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور طلحہ سمیت ان کے تین بیٹے مختلف اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: 'ہمیں مساجد میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا'

اس ہولناک حادثے کے دن نعیم حال ہی میں انجینئرنگ مکمل کرنے والے اپنے بیٹے طلحہ نعیم کے ہمراہ مسجد گئے اور دونوں حملے کا نشانہ بن گئے تھے۔

نیوزی لینڈ مساجد پر حملہ

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعہ کے روز 2 مساجد النور مسجد اور لین ووڈ میں دہشت گردوں نے اس وقت داخل ہوکر فائرنگ کی تھی جب بڑی تعداد میں نمازی، نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں موجود تھے۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس افسوسناک واقعے میں 51 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے، انہوں نے حملے کو دہشت گردی قرار دیا تھا۔

فائرنگ کے وقت بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم بھی نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد پہنچی تھی تاہم فائرنگ کی آواز سن کر بچ نکلنے میں کامیاب رہی اور واپس ہوٹل پہنچ گئی تھی۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ: مساجد میں فائرنگ کرنے والے دہشتگرد کو ملکی تاریخ کی بدترین سزا

مذکورہ واقعے کے بعد کرائسٹ چرچ میں بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہفتے کو ہونے والا تیسرا ٹیسٹ منسوخ کردیا گیا تھا اور بعد ازاں بنگلہ دیش نے فوری طور پر نیوزی لینڈ کا دورہ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مسجد میں فائرنگ کرنے والے ایک دہشت گرد نے حملے کی لائیو ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر نشر کی تھی جسے بعد میں نیوزی لینڈ حکام کی درخواست پر دل دہلا دینے والی قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا سے ہٹادیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں