ٹھیک دو ہفتے قبل پاکستان سے ایک بہت پیارے دوست کا فون آیا اور پوچھنے لگے کہ ہاں بھئی لاک ڈاؤن کب لگ رہا ہے آپ کی طرف؟ سوال کا مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اب تو لاک ڈاؤن کا زمانہ گیا۔

اپنے اس اعتماد کی وجہ یہ بتائی کہ ملک کی تقریباً 70 فیصد آبادی کو کورونا ویکسین کی دونوں ڈوز لگ چکی ہیں، بوسٹر پروگرام بھی جاری ہے اور 40 سال سے بڑی عمر کے افراد کو بوسٹر ڈوز دی جارہی ہے۔ کرسمس کی آمد ہے، بازار کھلے ہیں، پارٹیز اور ایونٹس کو حتمی شکل دی جارہی ہے اور لندن کا ونٹر ونڈرلینڈ، یہاں سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

ہمارے دوست کا اگلا سوال تھا کہ تو پھر امیکرون؟

جس کے جواب میں کہا گیا کہ ‘وہ تو نجانے ابھی کہاں پہنچا ہے، اس سے پہلے ڈیلٹا آیا، اور بھی ویرینٹ روپ بدل کر آتے رہے اور معمولاتِ زندگی خراب کرتے رہے، لیکن اب کی بار تو ہم ویکسینیٹڈ ہیں’۔

بہرحال اِدھر اُدھر کی چند باتوں کے بعد سلسلہ ختم ہوگیا۔

لیکن گزشتہ 3، 4 روز میں حالات ڈرامائی انداز سے تبدیل ہوئے ہیں۔ 15 دسمبر کو خبر آئی کہ کورونا کے ایک روز میں سامنے آنے والے کیسز 78 ہزار سے زائد ہیں جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل ایک روز میں سب سے زیادہ کیسز جنوری میں رپورٹ ہوئے تھے جن کی تعداد 68 ہزار تھی اور اس وقت ملک لاک ڈاؤن کی حالت میں تھا۔ اگرچہ سامنے آنے والے تمام کیسز، کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ اومیکرون کے نہیں ہیں لیکن سائنسدان اور طبّی ماہرین ملک میں اچانک کورونا کیسز بڑھنے اور اومیکرون کی تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت کی وجہ سے پریشان ہیں۔

مزید پڑھیے: لندن، ماضی میں وبا کے دن کیسے تھے؟

اس خبر کے اگلے ہی روز ایک دن کے دوران سامنے آنے والے مثبت کورونا کیسز کی تعداد 88 ہزار سے تجاوز کرگئی اور طبّی ماہرین نے انتباہ جاری کیا کہ آنے والے دنوں میں مزید ‘ریکارڈ’ ٹوٹیں گے۔

اس سے چند روز قبل وزیرِاعظم بورس جانسن نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ملک میں کورونا کے نئے ویرینٹ اومیکرون کے بارے میں خبردار کیا اور اعلان کیا تھا کہ عوامی مقامات پر فیس ماسک کی پابندی یقینی بنائی جائے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک بھر میں کورونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز ہنگامی طور پر لگانے کا اعلان بھی کیا تھا جس پر تیزی سے عمل درآمد جاری ہے۔

اگرچہ وزیرِاعظم بورس جانسن اور کئی حکومتی وزرا اس بات کی تردید کرچکے ہیں کہ ملک دوبارہ لاک ڈاؤن کی جانب جاسکتا ہے۔ مگر لوگوں کی بڑی تعداد گومگو کی کیفیت میں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شاید ٹریک ریکارڈ بھی ہے۔ اس سے قبل بھی برطانوی عوام دیکھ چکے ہیں کہ کیسے اچانک سے ملک بھر میں کورونا کیسز آئے اور پھر ملک کو لاک ڈاؤن اور سفری پابندیوں کی جانب جانا پڑا، جس کی وجہ سے نہ صرف معمولاتِ زندگی شدید متاثر ہوئے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی سخت نقصان پہنچا۔

گو ابھی تک نہ سرکاری سطح پر کہا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں مزید سخت پابندیوں کی ضروت ہے اور نہ ہی ابھی کرسمس بازاروں کی رونق کم ہوئی ہے لیکن چہ مگوئیاں شروع ہوچکی ہیں۔ فرانس نے برطانیہ سے سفر کرنے والے مسافروں کے لیے سفری پابندیوں کو سخت کرنے کا اعلان کیا ہے اور اب برطانیہ سے فرانس جانے والے صرف ‘ضروری وجہ’ کے تحت ہی سفر کرسکیں گے۔ اس خبر نے دیگر ممالک کے سفر کا ارادہ رکھنے والے افراد کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ کہیں دیگر ممالک بھی سفری پابندیاں نہ لگا دیں۔

اسی طرح ملک میں بڑھتے ہوئے کورونا کیسز کے پیش نظر ملکہ برطانیہ کی جانب سے کرسمس سے قبل روایتی طور پر منعقد کیے جانے والا ‘فیملی لنچ’ بھی منسوخ کردیا گیا ہے جس سے برطانوی عوام کی بڑی تعداد اپنے فیملی فنکشنز کے حوالے سے فکرمند ہوگئی ہے۔

تیزی سے آتی خبروں اور اس سے بھی تیزی سے تبدیل ہوتے حالات میں آنے والے دنوں کا اندازہ لگانا یقیناً مشکل محسوس ہوتا ہے۔ کورونا وبا کے منظرِ عام پر آنے اور پھر ہر شعبہ زندگی کو لپیٹ میں لینے کے بعد حالات ایسی تیزی سے تبدیل ہوتے رہے ہیں کہ اب یہ یاد رکھنا بھی بظاہر دشوار لگتا ہے کہ کب کیا ہوا۔ ٹائر سسٹم کب متعارف کروایا گیا اور اس نے ٹریفک لائٹ سسٹم کا روپ کب دھارا۔ کب سے کب تک بھرپور لاک ڈاؤن رہا اور کن دنوں میں محض ماسک کی پابندی کے احکامات جاری کیے گئے۔ ورزش کے لیے جم جانے پر پابندی کن دنوں کے دوران رہی اور حکومت کی جانب سے باہر گھومنے اور کھانے پینے کی حوصلہ افزائی کے لیے ایٹ آؤٹ اسکیم کب متعارف کروائی گئی۔

مزید پڑھیے: کورونا وائرس، برطانیہ میں معمولات زندگی کیسے ہیں؟

یہ اور اس طرح کے درجنوں معاملات آپس میں اس طرح گتھم گتھا ہیں کہ کوئی سرا ہاتھ آنا مشکل ہے۔ ان حالات میں اردگرد موجود لوگوں سے گفتگو کریں تو گویا ہر انسان بے یقینی کی کیفیت میں جی رہا ہے۔ کرسمس پارٹیز ہوسکیں گی یا نہیں؟ نئے سال کے آغاز پر ہونے والا آتش بازی کا مظاہرہ اچانک ملتوی تو نہیں کردیا جائے گا؟ اگر اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان ہوگیا تو کیا پچھلی مرتبہ کی طرح ضروری اشیا کی قلت تو نہیں ہوجائے گی؟ یوں کورونا سے ہوتے ہوئے اب زندگی کی ہر چیز اور پلاننگ اومیکرون کے گرد گھومتی ہے۔

اومیکرون کی وجہ سے پیدا شدہ بے یقینی اور دوبارہ سے خراب ہوتے حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں ہمارے دوست اسامہ خان بھی ہیں۔ اسامہ پاکستان سے برطانیہ ماسٹر کرنے آئے۔ اپنی یونیورسٹی میں آن لائن اور فیزیکل دونوں طرح کی تعلیمی کیفیت سے بھی گزرے اور بین الاقوامی تعلقات میں کامیابی سے ڈگری مکمل بھی کی لیکن قسمت دیکھیے کہ کونووکیشن سے محض ایک روز قبل سرکاری سطح پر فیس ماسک کا استعمال دوبارہ سے ضروری قرار دے دیا گیا۔ لہٰذا یونیورسٹی نے بھی اعلان کیا کہ اب ڈگری حاصل کرنے والے تمام طالبِ علم اسٹیج پر آنے کے بعد نہ تو معزز مہمان سے ہاتھ ملائیں گے اور نہ ہی چہرے سے نقاب ہٹائیں گے۔ یوں اسامہ کی زندگی کا ایک بہت اہم سنگ میل کیمرے میں قید تو ہوا لیکن ان کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔

کورونا اور اب اومیکرون کس طرح اردگرد لوگوں کے معمولات اور پلاننگ پر اثر انداز ہورہا ہے، اس حوالے سے روزانہ ہی کچھ نہ کچھ سننے کو ملتا ہے۔ ملک سے باہر سفر کرنے والے گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ ہسپتالوں میں کورونا مریض بڑی تعداد میں داخل ہورہے ہیں جس وجہ سے ہسپتالوں کو اپنی معمول کی خدمات جاری رکھنے میں دشواری کا سامنا ہے اور روٹین آپریشنز ملتوی کیے جارہے ہیں۔

دوسری جانب وزیرِاعظم بورس جانسن کہہ چکے ہیں کہ دوبارہ سے گھر سے کام یعنی ورک فرام ہوم کیا جائے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ اور سڑکوں پر ابھی بھی رش جوں کا توں ہے۔ کرسمس کی آمد سے قبل بازاروں اور شاپنگ مالز میں لگنے والی سیلز کی وجہ سے یہاں بھی کم بھیڑ نہیں بلکہ شاید گزشتہ سال کی نسبت زیادہ ہی ہے۔

مزید پڑھیے: برطانیہ میں کورونا ویکسین کا استعمال شروع، برٹش پاکستانی کیا رائے رکھتے ہیں؟

کرسمس اور نئے سال کی آمد سے قبل لندن کے سیاحتی مقامات پر جو رونق اور گہما گہمی رہتی ہے اس کی آب و تاب اس بار بھی روایتی ہی ہے۔ گو حالیہ کچھ دنوں کی خبریں اور عوامی نمائندوں کی پریس کانفرنسز سننے کے بعد کہیں دُور سے آتی سخت حالات کی آہٹ محسوس کی جاسکتی ہے لیکن کم از کم لندن کی حد تک عوامی موڈ فی الوقت کسی بھی قسم کی ناخوشگوار پابندیوں کو قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔

اگرچہ دعا، امید اور خواہش یہی ہے کہ حالات اس نہج پر نہ جائیں کہ ایک بار پھر کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں والی سختیوں کا سامنا کرنا پڑے لیکن فی الوقت برطانیہ بھر میں روزانہ کی بنیاد پر تیزی سے بڑھتے کیسز اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ اگر ابھی سے مکمل اور سخت احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو آنے والے دن مشکل پابندیوں کے بغیر گزارنا شاید ممکن نہ ہوں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Waleed Farooq Dec 18, 2021 03:05am
It's really informative. Thanks for sharing