بیوی کے حقوق کو پورا کرنا شوہر کی ذمے داری ہے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 04 اگست 2022
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بات خواتین کے حقوق اور ذمہ داریوں کی ہو تو مرد مذہب بھول جاتے ہیں— فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بات خواتین کے حقوق اور ذمہ داریوں کی ہو تو مرد مذہب بھول جاتے ہیں— فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اسلامی قانون کے تحت جب تک عورت اپنے شوہر سے 'وفادار اور ازدواجی ذمہ داریوں کو پورا کرتی رہے گی'، اس وقت تک بیوی کے حقوق کو پورا کرنا شوہر کی ذمے داری ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے تحریر کردہ فیصلے میں کہا کہ ایک مسلمان شوہر اپنی بیوی کے یہ حقوق پورا کرنے کا پابند ہے چاہے شادی کے وقت ان کے درمیان اس سلسلے میں کسی شرط پر اتفاق نہ ہو یا وہ خود اپنے وسائل سے اپنی ذمے داریوں کو پورا کررہی ہو۔

مزید پڑھیں: خلع لینے والی بیوی کو 100 فیصد حق مہر واپس کرنا ہوگا، وفاقی شرعی عدالت

جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بینچ کے رکن ہیں جس کی سربراہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے جو 9 مارچ 2020 کو پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حسین اللہ کی جانب سے دائر اپیل کی سماعت کررہا تھا۔

یہ تنازع حسن اللہ کی اہلیہ ناہید بیگم کی طرف سے چارسدہ کی فیملی کورٹ میں اپنے مہر کی وصولی کے لیے دائر مقدمہ سے متعلق ہے جس میں اس چار کنال اراضی کی ادائیگی کا دعویٰ کیا گیا جس کا نکاح نامہ کے کالم نمبر 16 میں ذکر کیا گیا تھا اور ساتھ ہی ان کے اور ان کے 5 نابالغ بچوں کی کفالت کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا، شوہر نے دوسری شادی کر لی تھی اور وہ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہ رہا ہے۔

عدالت نے نابالغ بچوں کی کفالت کے دعوے کی حد تک مقدمے کا فیصلہ سنایا لیکن مہر کی وصولی اور ذاتی کفالت کے دعووں کو مسترد کر دیا تھا، ایک ضلعی عدالت نے فیملی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے خاتون کی اپیل خارج کر دی تھی۔

اس کے بعد مدعی ناہید بیگم نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے عدالتوں کے سابقہ فیصلوں کو ختم کرتے ہوئے شوہر کو مہر کی رقم کی ادائیگی اور کفالت کرنے کا حکم دیا تھا چنانچہ درخواست گزار نے اپیل کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بیوی کو شوہر کے جوتے بھی اٹھانے چاہئیں، صدف کنول

فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے زور دیا کہ قرآن پاک بیان کرتا ہے کہ مرد خواتین کے محافظ ہیں کیونکہ خدا نے ایک کو دوسرے سے زیادہ طاقت دی ہے اور اس وجہ سے کہ وہ اپنے پیسے سے ان کی کفالت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ حضور اکرمﷺ نے مسلمان مردوں کو اپنی بیویوں کی مناسب طریقے سے کفالت کی بھی ہدایت کی ہے اور اسے عورت کا حق قرار دیا ہے لیکن جج نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ درخواست گزار اپنی مرضی اور خوش اسلوبی سے مدعی کو مہر کی ادائیگی کے بجائے کسی نہ کسی بہانے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری سے بھاگ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو اس نے نکاح نامے میں اپنی بیوی کو چار کنال زرعی زمین بطور مہر دینے کے حوالے سے کسی بھی قسم کے معاہدے سے یکسر انکار کیا اور بعد میں اس دلیل کے ساتھ اس کی مخالفت شروع کر دی کہ اسے بطور متبادل دیا جانا تھا وہ بھی اس صورت میں کہ اگر 7تولہ سونے کے وہ زیورات نہ دیے جاتے جن کا نکاح نامے کے کالم نمبر 13 میں ذکر کیا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مشاہدہ کیا کہ یہ مرد کی بالادستی والا معاشرہ ہے، مرد بالخصوص ازدواجی معاملات میں زمانوں سے مذہب کو اپنی سہولت کے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ فکر مند رہے ہیں، لیکن جب بات خواتین کے لیے ان کے فرض اور ذمہ داری کی ہو تو مذہب کو بھول جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: وفاقی شرعی عدالت نے ’سوارہ‘ کو غیر اسلامی قرار دے دیا

انہوں نے مہر کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کس طرح اسلام کی آمد سے قبل عرب میں شادی کے وقت مہر کی رقم کی ادائیگی کا رواج تھا، انہوں نے مزید کہا کہ دلہن کے مرد سرپرستوں کی جانب سے دلہن کی قیمت کے طور پر مہر ادا کرنے کے اس رواج کی اسلام نے اصلاح کرتے ہوئے قرآنی احکامات کے ذریعے اس رقم کو دلہن کی دولت کے طور پر ادا کرنے کی ہدایت کی جہاں وہ مرد اس کا واحد مالک بنتا ہے۔

جسٹس منصور علی نے مزید مشاہدہ کیا کہ قرآن پاک مومنوں کو اپنی بیویوں سے ادا شدہ مہر میں سے کچھ بھی واپس لینے سے منع کرتا ہے چاہے وہ بہت بڑی رقم ہی کیوں نہ ہو، اسلام میں شادی کے موقع پر دلہن کو مہر کی ادائیگی ایک ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی تھی اور اس طرح یہ مسلمانوں کی شادی کا ایک بنیادی اور لازمی جزو ہے۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اس مقدمے میں جہاں ایک شوہر اپنی بیوی کو نان نفقہ اور مہر کی ادائیگی پر تنازع کرتا ہے، یہ دراصل اسلامی قانون کے تحت نان نفقہ اور مہر کے حوالے سے شوہر کے اصولوں، فرائض اور بیوی کے لیے ذمہ داریوں کو واضح کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بیوی سے معاشقہ چھپانے کی کوشش کرنے والے شوہر کو سزا

ان کا کہنا تھا کہ یہ افسوسناک ہے کہ درخواست گزار ایک تعلیم یافتہ شخص اور تدریس کے مقدس پیشے سے تعلق رکھنے کے باوجود ناصرف ملک کے قانون کے تحت بلکہ اللہ تعالیٰ کے قرآن پاک میں مسلمانوں کو قرآن پاک میں دیے گئے احکامات کے تحت شادی کے وقت طے شدہ مہر ادا کرنے کی اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ حسین اللہ کی درخواست بے بنیاد ہے، اس لیے خارج کردی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں