بھارت: گینگ ریپ واقعے کی رپورٹنگ کی کوشش پر قید صحافی کی ضمانت دو برس بعد منظور

اپ ڈیٹ 10 ستمبر 2022
بھارتی سپریم کورٹ نے صحافی صدیق کپن کی تقریبا دو برس بعد ضمانت منظور کرلی—فائل فوٹو: الجزیرہ
بھارتی سپریم کورٹ نے صحافی صدیق کپن کی تقریبا دو برس بعد ضمانت منظور کرلی—فائل فوٹو: الجزیرہ

بھارتی سپریم کورٹ نے ریاست اترپردیش میں گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی دلت برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے اہل خانہ سے انٹرویو اور احتجاج کی رپورٹنگ کی کوشش کے جرم میں 700 دن قید کی سزا پانے والے صحافی صدیق کپن کی ضمانت تقریباً دو برس منظور کرلی۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے آج صدیق کپن کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں 6 ہفتوں تک نئی دہلی میں رہنے کی ہدایت کی جس کے بعد انہیں اپنے شہر بھارت کی جنوبی ریاست کیرالا واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔

مزید پڑھیں: 'اختلاف رائے ضروری ہے'، بھارتی صحافی زبیر کی ایک اور مقدمے میں ضمانت

سپریم کورٹ نے قید رپورٹر کو اس وقت ضمانت دینے پر رضامندی ظاہر کی جب عدالت نے نشاندہی کی کہ گزشتہ سال اپریل میں درج مقدمے میں پولیس کی تفتیش میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ’ہر شخص کو اظہار آزادی کا حق حاصل ہے، صحافی یہ دکھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ متاثرہ بچی انصاف کی منتظر ہے اس لیے انہوں نےآواز بلند کی‘۔

تاہم، اس سے قبل مقامی عدالتوں نے ضمانت کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

صحافی صدیق کپن کی اہلیہ ریحانتھ کپن نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’مجھے بہت خوشی ہے کہ باالآخر انہیں ضمانت مل گئی‘۔

رپورٹ کے مطابق 42 سالہ صدیق کپن کو 5 اکتوبر 2020 کو گرفتار کرکے دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جب وہ ہاتھرس جا رہے تھے، جہاں حکام نے جنسی زیادتی کے بعد زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑنے والی نوجوان خاتون کی آخری رسومات ادا کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: سپریم کورٹ کا صحافی محمد زبیر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم

خیال رہے کہ 14 ستمبر 2020 کو 19 سالہ دلت خاتون کا ٹھاکر برداری کے 4 افراد نے مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنسی زیادتی کی وجہ سے نوجوان خاتون کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹیں آئی تھیں اور دو ہفتے بعد دارالحکومت نئی دہلی کے ایک ہسپتال میں زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں تھیں جس کے بعد ملک بھر میں غم و غصہ اور شدید احتجاج شروع ہوا تھا۔

بھارت کے علاقے ہاتھرس میں حکام نے 30 ستمبر کی رات کے آخری پہر میں خاتون کی آخری رسومات ہندو مذہب کے مطابق ادا کی تھیں تاہم خاتوں کے لواحقین نے الزام عائد کیا تھا کہ جب انہوں نے آخری رسومات کے لیے رضامندی سے انکار کیا تو پولیس نے انہیں گھر کے اندر بند کر دیا تھا۔

مقتولہ کی آخری رسومات جبری اور خفیہ طریقے سے ادا کیے جانے کے خلاف مظاہروں میں شدت آئی تھی اور کئی صحافی اس حوالے سے رپورٹنگ کے لیے ہاتھرس پہنچ گئے تھے اور ملیالم زبان کی خبروں کی ویب سائٹ ازی مخم کو خبریں فراہم کرنے والے صحافی صدیق کپن بھی ان میں سے ایک تھے۔

صدیق کپن 5 اکتوبر 2020 کو جب نئی دہلی سے 200 کلومیٹر دور ہاتھرس شہر کی طرف جا رہے تھے تو انہیں اتر پردیش کی پولیس نے کار میں سوار دیگر 3 افراد کے ہمراہ گرفتار کرلیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں مارے گئے بھارتی صحافی کے والدین کی طالبان کے خلاف قانونی کارروائی

ابتدائی طور پر پولیس نے صدیق کپن کے خلاف مقدمے میں ذات کی بنیاد پر فساد اور فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا، بعدازاں، دہشت گردی کے لیے فنڈز جمع کرنے سمیت غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کی دفعات بھی شامل کیے گئے تھے۔

دوسری جانب صدیق کپن نے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بحیثیت صحافی وہ صرف اپنی ذمہ داری ادا کر رہے تھے۔

صدیق کپن کے سابق وکیل ولز میتھیوز نے کہا کہ ان کو دی گئی ضمانت ’انصاف میں تاخیر‘ کا معاملہ ہے۔

وکیل نے بتایا کہ دو برس ہونے والے تھے اور میں کہتا ہوں کہ ضمانت کا مقدمہ عام طور پر 45 سے 90 دنوں میں سنایا جاتا ہے۔

صحافی کی گرفتاری کے بعد ان کے ساتھیوں اور صحافتی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے بھارتی حکومت پر ’جرنلزم کو جرم بنانے‘ اور صحافیوں کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے سخت قوانین کا استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔

مزید پڑھیں: صحافیوں کی عالمی تنظیم کا بھارت سے کشمیری صحافی کی رہائی کا مطالبہ

خیال رہے کہ جب سے بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2014 میں اقتدار کی کرسی سنبھالی ہے تب سے بھارت میں صحافیوں، سول سوسائٹی کے کارکنان اور گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آئی ہے۔

رواں برس مئی میں پیرس میں قائم میڈیا واچ ڈاگ 'رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز ' کے جاری کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بتایا تھا کہ 180 ممالک میں بھارت کی درجہ بندی 142 سے 150 پر آگئی ہے۔

رپورٹرز وداؤٹ بارڈز کے مطابق بھارتی جیلوں میں اس وقت 9 دیگر صحافی قید ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کے معروف صحافی و اینکر روہت سردانا کی کورونا سے موت

بھارت میں اظہار رائے کی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے والی ایک تنظیم فری اسپیچ کلیکٹو کی شریک بانی گیتا سیشو نے بتایا کہ یہ ضمانت ایک مکمل طور پر غیر منصفانہ مقدمے اور قید کے دو سال کے بعد ملی ہے۔

گیتا سیشو نے کہا کہ ایک صحافی کو اُس وقت پکڑ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا، جب وہ محض ایک بھیانک جرم کور کرنے کے لیے سفر کر رہا ہو، یہ بھارت میں ہمارے آزادیِ اظہار کے حق کی کمزوری کی واضح مثال ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں