'ہماری رائے میں الیکشن کمیشن 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا اختیار نہیں رکھتا'

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2022
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی — تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی — تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہماری رائے میں الیکشن کمیشن 62 (ون) (ایف) کے تحت تاحیات نااہلی کا اختیار نہیں رکھتا۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، سپریم کورٹ نے فیصل واڈا کے وکیل سے دو سوالات پر جوابات طلب کیے۔

سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ ہائی کورٹ کی 62 ون ایف کے تحت ڈکلئیریشن کو سپریم کورٹ برقرار رکھ سکتی ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فیصل واڈا کیس میں غلطی تسلیم کی گئی، نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں، چیف جسٹس

عدالت نے مزید دریافت کیا کہ کیوں نہ سپریم کورٹ حقائق کی روشنی میں مکمل انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے آرٹیکل 187 کا اختیار استعمال کرے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب کیس سپریم کورٹ آگیا اور نظر آرہا ہے کہ غلط ہوا تو سپریم کورٹ آرٹیکل 187 کا استعمال کیوں نہ کرے؟

وکیل فیصل واڈا وسیم سجاد نے کہا کہ اختیار تو سپریم کورٹ کا بہت ہے کسی کو بھی پھانسی لگا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کے نکات پر مزید سوچ لیجیے، فیصل واڈا نااہلی کیس میں نہ صرف سینئر بلکہ دو سابق چئیرمین سینیٹ وکلا ہیں۔

مزید پڑھیں: فیصل واڈا کا ایک اور جھوٹ سامنے آگیا، جسٹس منصور علی شاہ

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دیتے ہیں۔

وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ آئندہ ہفتے سماعت نہ رکھیں گڑبڑ لگ رہی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ اگلے ہفتے گڑبڑ کی توقع کر رہے ہیں؟

بعدازاں کیس کی مزید سماعت 9 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔

فیصل واڈا نااہلی کیس

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کے خلاف دوہری شہریت پر نااہلی کی درخواستوں پر فیصلہ 23 دسمبر 2021 کو محفوظ کیا تھا۔

محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا تھا جبکہ انہیں بطور رکن قومی اسمبلی حاصل کی گئی تنخواہ اور مراعات دو ماہ میں واپس کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: تاحیات نااہلی کے خلاف فیصل واڈا کی درخواست مسترد

اس کے علاوہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے بطور سینیٹر منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن بھی واپس لے لیا تھا جبکہ ان کی جانب سے بحیثیت رکن قومی اسمبلی، سینیٹ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹ کو بھی 'غلط' قرار دیا گیا تھا۔

فیصل واڈا پر الزام تھا کہ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑتے ہوئے اپنی دوہری شہریت کو چھپایا تھا۔

فیصل واڈا نااہلی کیس 22 ماہ سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہا، مذکورہ کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی کیس پر سماعت ہوئی۔

فیصل واڈا کی دوہری شہریت کے خلاف قادر مندوخیل کی جانب سے 2018 میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ جس وقت فیصل واڈا نے قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت وہ دوہری شہریت کے حامل اور امریکی شہری تھے۔

یہ بھی پڑھیں: فیصل واڈا کی نااہلی کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر

درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیصل واڈا نے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن میں ایک بیانِ حلفی دائر کیا تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے شہری نہیں ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ انہوں نے جھوٹا بیانِ حلفی جمع کرایا تھا اس لیے آئین کی دفعہ 62 (1) (ف) کے تحت وہ نااہل ہیں۔

درخواست کی سماعت کے دوران سابق وزیر کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصل واڈا نے کوئی جھوٹ نہیں بولا، کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل انہوں نے اپنا غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا۔

سماعت کے دوران فیصل واڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے ان کا پیدائشی سرٹیفکیٹ کمیشن میں جمع کروایا اور بتایا تھا کہ فیصل واڈا امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی طور پر امریکی شہری تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں