اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے اداراے کے سربراہ وولکر ترک نے افغان طالبان سے خواتین کی سول سوسائٹی تنظیم کی جانب سے منعقد ایک پریس کانفرنس کے دوران حراست میں لی گئیں 5 کارکنان کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں آکر رکاوٹیں پیدا کی جس کا مقصد خواتین کی ایک نئی تحریک 'افغان خواتین کی تحریک برائے مساوات' شروع کرنا تھا۔

مزید پڑھیں: طالبان کے پہلے سالانہ بجٹ میں 5 کروڑ ڈالر سے زائد خسارے کی پیش گوئی

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیوز کانفرنس کے دوران ایک خاتون کارکن ظریفہ یعقوبی اور ان کی چار ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ دیگر خواتین کو بھی عارضی طور پر تحویل میں لے کر ان سے تلاشی لی گئی اور بعد میں انہیں رہا کردیا گیا۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے اپنے ترجمان کی توسط سے کہا کہ ہم ان پانچوں خواتین کے حوالے سے فکر مند ہیں اور ان کی حراست کے بارے میں حکام سے معلومات طلب کی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:اقوام متحدہ کا طالبان پر خواتین عملے کو ہراساں کرنے کا الزام

تاہم، طالبان کے ترجمان نے اس متعلق فوری طور پر کوئی بیان نہیں دیا اور کہا کہ وہ معاملے کا جائزہ لیں گے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کی خواتین کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کے برعکس خواتین کے لباس، نقل و حرکت اور تعلیم پر نئی پابندیاں عائد کردی ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد خواتین کی تعلیم، نوکریوں اور سماجی زندگی کے دیگر عوامل پر متعدد پابندیاں عائد کی گئی ہیں جہاں خواتین ہر آئے دن اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آتی ہیں جبکہ عالمی برداری بھی طالبان حکام پر خواتین کے حقوق باالخصوص تعلیم کی فراہمی یقینی بنانے پر زور دے رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں