لکھاری سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر ہیں۔
لکھاری سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر ہیں۔

حال ہی میں یہ متضاد خیالات پروان چڑھے ہیں کہ پاکستانی ریاست کا کون سا طبقہ مشرقی پاکستان کی علحیدگی کا ذمہ دار تھا؟ کیا اس کی ذمہ دار فوج تھی یا پھر سیاست؟ میرے نزدیک 1971ء میں سقوطِ ڈھاکا، سیاسی اور عسکری قیادت دونوں کی ناکامی کا نتیجہ تھا۔

اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل یحییٰ خان کی مارشل لا حکومت، ایک ایسی سیاسی حکومت تھی جسے فوج چلا رہی تھی۔ ریاستی اداروں کا نظام چلانا فطری طور پر ایک سیاسی عمل ہے۔ جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ اس نظام کو چلانے والا سول اور عوام کی جانب سے منتخب کردہ ہے یا اس کا تعلق فوج سے ہے جو ووٹ حاصل کرکے اقتدار میں نہ آیا ہو۔

اپریل 1969ء سے فروری 1971ء تک، ان 22 مہینوں میں جنرل یحییٰ خان نے 4 اہم سیاسی فیصلے لیے:

  • مغربی پاکستان کی ون یونٹ حیثیت کا خاتمہ اور چاروں صوبوں کی بحالی۔
  • ہر شخص کو ووٹ کا حق دینے کے اصول کو اپنایا گیا جس سے مشرقی پاکستان کو آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی نشستوں پر اکثریتی ووٹ حاصل ہوا۔
  • دسمبر 1970ء میں شفاف انتخابات کا غیر جانبدرانہ انعقاد جس کے نتائج سب نے تسلیم کیے تھے۔
  • انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان کا عوامی موقف جس میں انہوں نے عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمٰن کا حوالہ ’مستقبل کے وزیرِاعظم‘ کے طور پر دیا تھا۔

جنرل یحییٰ خان نے دونوں سیاسی رہنماؤں کو بات چیت کے ذریعے تلخیاں کم کرنے کو کہا۔ انتخابات میں مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت نے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں ایک بھی نشست نہیں جیتی تھی جبکہ مغربی پاکستان کی جماعت بھی مشرقی پاکستان میں نشست جیتنے میں ناکام رہی تھی۔

مگر پھر ناقابلِ فہم طور پر فروری 1971ء کے وسط سے یحییٰ خان ایک ایسی سیاسی کھائی میں اتر گئے جو بہت گہری تھی۔ جب ملک شدید سیاسی تقسیم کا شکار تھا، اس وقت قوم سے مخاطب ہونے اور اس بڑھتی ہوئی تفریق پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انہوں نے یکم مارچ 1971 کو ایک بیان نشر کرنے کی اجازت دی جس میں 3 مارچ 1971 کو ہونے والے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔

جب مشرقی پاکستان میں انتشار اپنے عروج کو پہنچ گیا تب 6 مارچ کو یحییٰ خان نے اسمبلی کا پہلا اجلاس 26 مارچ کو بلانے کا اعلان کیا مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اعتماد کو بُری طرح نقصان پہنچا تھا۔ سول نافرمانی کی مہم اب پُرتشدد صورت اختیار کرچکی تھی۔ مشرقی پاکستان میں پاکستانی پرچم نذرِ آتش کیے گئے، ریاستی اداروں پر حملہ کیا گیا حتیٰ کہ شہریوں کو بھی قتل کیا گیا۔

جنرل یحییٰ خان نے ڈھاکا میں شیخ مجیب الرحمٰن سے بات چیت کا آخری دور منعقد کیا جو ناکام ہوا۔ اس دوران وہ مشرقی پاکستان پر خفیہ فوجی آپریشن کی بھی تیاری کر رہے تھے جو 25 اور 26 مارچ کو شروع ہوا جس کا تباہ کن انجام ہم نے 16 دسمبر کو سقوطِ ڈھاکا کی صورت میں دیکھا۔

ان 262 دنوں کے دوران جنرل یحییٰ خان کے تمام فیصلے عالمی جغرافیائی سیاسی حقائق اور اندرونی سیاست کے حوالے سے ناکام ثابت ہوئے۔

ان سب فیصلوں میں امریکا اور چین کی حمایت پر حد سے زیادہ بھروسہ کرنا، بھارت کے مضموم مقاصد پر زیادہ توجہ نہیں دینا، 21 نومبر 1971کو مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہنگامی رسمی شکایت کا اندراج نہ کرنا اور ڈھاکا میں موجود فوجی اور سول حکام کے متواتر پیغامات کا جواب نہ دینا شامل ہیں۔

حکومت نے مشرقی پاکستان میں موجود حکام کی جانب سے مزید ہتھیاروں کی فراہمی اور فوجی دستے بھیجنے کی درخواستوں پر کان نہیں دھرے۔ دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کے صرف 34 ہزار فوجیوں کا مقابلہ 3 لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں اور بنگالی مکتی باہنیوں سے تھا۔

جبکہ مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت نے بھی اکڑ اور تنگ نظری کا مظاہرہ کیا۔ بجائے اس کے کہ جیتنے کے بعد فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے، شیخ مجیب الرحمٰن نے راولپنڈی اور مغربی پاکستان آنے کے 2 دعوت ناموں کو ٹھکرا دیا۔ عوامی لیگ کے 6 نکاتی منشور کی مشرقی پاکستان کے ووٹرز نے بھرپور تائید کی تھی یہی وجہ ہے کہ اسمبلی کے پہلے اجلاس سے قبل عوامی اتفاق رائے سے منتخب پارٹی کی حیثیت کو ماننے سے انکار نے حالات کو خطرناک رخ دے دیا۔

جنوری 1971ء میں جب 2 ہائی جیکرز بھارتی طیارے کو لے کر لاہور ایئرپورٹ اترے تھے تب ذوالفقار علی بھٹو نے اس طیارے کا دورہ کیا اور ہائی جیکرز کو ایسے عمل پر شاباشی دی جسے پوری دنیا سنگین جرم تسلیم کرتی ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بھارت نے اپنی فضائی حدود میں پاکستانی پروازوں کے داخلے پر پابندی لگادی۔ اس تناؤ کی وجہ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان فاصلہ 3 گنا طویل اور مہنگا ہوگیا۔

ذوالفقار بھٹو کا یہ اصرار تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) واحد جماعت ہے جس کی نمائندگی پورے مغربی پاکستان میں موجود ہے، حالانکہ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں انہیں بہت ہی محدود کامیابی ملی تھی۔ اسی بیانیے اور اپنے اقدامات سے انہوں نے ظاہر کیا کہ وہ ہر صورت اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو دیگر جرنیلوں کے ذریعے جنرل یحییٰ خان کے مجیب الرحمٰن کی جانب بدلے ہوئے رویے کا باعث بنے۔ فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’پاکستان بچ گیا ہے‘۔

اکتوبر اور نومبر 1971ء میں پاکستان پیپلز پارٹی مشرقی پاکستان میں ضمنی انتخابات بھی لڑنے کو تیار تھی۔ مغربی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت تو آپس میں براہِ راست تعاون کرتے تھے مگر ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جی ایچ کیو راولپنڈی میں اعلیٰ عہدے پر کوئی بھی بنگالی جنرل فائز نہیں تھا۔

نئے عدالتی اور عسکری گٹھ جوڑ کی جانب سے کیے جانے والے بھٹو کے بے رحمانہ قتل سے 8 سال پہلے اور سقوطِ ڈھاکا سے چند ہفتے قبل، ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کے نائب وزیرِاعظم کے طور پر عہدہ سنبھالا تھا۔

یکم مارچ سے مئی 1971ء کے اوائل تک رپورٹ نہ ہونے والے غیر بنگالیوں کے قتلِ عام اور 262 دنوں کے دوران ہونے والے مظالم کے پیچھے پاک فوج کے کچھ افسران ضرور ملوث تھے۔ بھارتی سپریم کمانڈر نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ (پاکستانی افواج) بہت بہادری سے ’المناک طریقے اور بے رحمی سے لڑے اور ان کے مظالم کی الگ سے عکاسی کرنے کی ضرورت ہے۔

ان 51 سالوں میں مبالغہ آرائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب جھوٹ بھی سچ لگنے لگا ہے۔ 1971ء میں ہونے والی ہائبرڈ ناکامی اس بات کی مستحق ہے کہ اس پر مسلسل غور و فکر اور تحقیق کی جائے۔


یہ مضمون 16 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Asfandyar Khan Dec 16, 2022 07:20pm
seems like we will never learn from history, excellent article in a very precise manner, people like Mr.Javaid Jabbar are the true assets of our political spectrum. kudos to him.
Junaid Ahmed Dec 20, 2022 11:28am
Javed Jabbar Sahab very Well done for summarizing all the events that took place during Dhaka fall.