خیبرپختونخوا کی احتساب عدالتوں میں انسداد بدعنوانی کے قانون میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد فیصلوں کے لیے صرف 11 مقدمات رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ دو ماہ کے دوران تقریباً 130 ریفرنس قومی احتساب بیورو کو واپس کردیے گئے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں 8 احتساب عدالت موجود ہیں جن میں سے صرف 5 عدالتیں بحال ہیں۔

قومی احتساب آرڈینیس1999 کے تحت قومی احتساب (ترمیم) ایکٹ 2022 قومی احتساب (ترمیمی) ایکٹ 2022 اور قومی احتساب (دوسری ترمیم) ایکٹ 2022 کے نفاذ کے تحت رواں سال کے اوئل میں پارلیمنٹ کی جانب سے قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں تبدیلیاں کی گئیں جو سرکاری 22 جون اور 16 اگست 2022 کو سرکاری گزٹ میں شائع ہیں۔

ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو کے سیکشن 5(O) میں سب سے اہم ترمیم کرپشن اور غیر قانونی سرگرمیوں کے جرم کی وضاحت کرنے کے لیے کی گئی ہے ان میں ایک 50 کروڑ روپے سے کم کی کرپشن شامل ہے۔

قانون میں تبدیلی کے بعد 5 کروڑ روپے سے کم کی مبینہ کرپشن کے ریفرنسز میں ملزمان نے ضابطہ فوجداری کے سیکشن کے 265 کے تحت ان ترامیم کی بنیاد پر بری ہونے کا مطالبہ کیا۔

تاہم احتساب عدالتوں نے انہیں بری کرنے کے بجائے یہ ریفرنس نیب کو واپس کردیا تاکہ ان ریفرنس کو قانون کے تحت دیگر فورم کے سامنے رکھا جائے۔

ججز نے کہا کہ ان میں سے کرپشن، بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے الزامات کے ریفرنس کی نیب تحقیقات نہیں کرسکتی اور نہ ہی ان مقدمات کی سماعت احتساب عدالت کرسکتی ہے۔

حال ہی میں احتساب عدالت نے پاکستان پیلزپارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر ارباب عالم گیر اور ان کی اہلیہ عاصمہ جہانگیر کے خلاف ریفرنس واپس کردیا تھا، جن پر سال 2019 میں 33 کروڑ 20 لاکھ روپے اثاثے رکھنے کے الزام میں فرد جرم عائد تھی۔

کے پی نیب نے دونوں کے خلاف مشترکہ ریفرنس دائر کیا تھا جس میں الزام لگایا کہ دونوں نے بے نامی داروں اورزیر کفالت افراد کے ناموں کی بنیاد پر 33 کروڑ 20 لاکھ روپے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے جمع کیے ہیں۔

ڈاکٹر ارباب عالم گیر اور ان کی اہلیہ عاصمہ جہانگیر نے بے گناہی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تمام اثاثے آمدنی کے باوثوق ذرائع سے حاصل کیے گئے ہیں۔

نیب نے دعویٰ کیا کہ یہ ریفرنس ملک میں موجود اثاثوں سے متعلق تھا جبکہ ڈاکٹر ارباب عالم اور ان کی اہلیہ عاصمہ جہانگیر کے غیر ملکی اثاثوں سے متعلق ضمنی ریفرنس ثبوت حاصل کرنے کے بعد دائر کیا جائے گا۔

تاہم بیورو نے اب تک نہ تو کوئی ضمنی ریفرنس دائر کیا ہے اور نہ ہی اس مبینہ غیر ملکی اثاثوں کے ثبوت پیش کیے ہیں۔

نیب کو ریفرنس واپس کرتے ہوئے جج نے کہا کہ نہ تو مستقل میں ضمنی ریفرنس دائر کرنے کی امید ہے اور نہ ہی پراسیکیوشن کو سہولت فراہم کرنے کے لیے کیس کو غیر معینہ مدت کے لیے زیر التوا رکھا جاسکتا ہے

عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ فی الحال احتساب عدالتوں کے پاس صرف 50 کروڑ روپے سے زائد کی مبینہ کرپشن کے مقدمات ہیں۔

سب سے اہم زیر التوا ریفرنس مالی سال 2009 اور 2010 میں محکمہ پولیس کے لیے ہتھیاروں کی خریداری میں مبینہ دھوکہ دہی کا ہے۔

اس وقت سابق صوبائی پولیس چیف ملک نوید خان اور پولیس کے بجٹ افسر جاوید خان اس مقدمے میں مرکزی ملزم ہیں۔

مرکزی ملزمان پر احتساب عدالت کی جانب سے 7 جولائی 2015 کو مقدمہ میں وعدہ معاف گواہ بننے والے ٹھیکیدار راشد مجید سے کک بیکس (رشوت) وصول کرنے اور سال 2009 اور 2010 میں محکمہ پولیس کے لیے ہتھیاروں اور آلات کی خریداری کے دوران 2 ارب 3 کروڑ 12 لاکھ 50 ہزار روپے کا نقصان پہنچانے پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

مرکزی ملزمان نے کیس میں قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی تھی جس کی وجہ سے ان پر کئی سالوں سے مقدمہ چلا آرہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں