لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

8ویں صدی میں عرب فوجیں مراکش سے اسپین میں داخل ہوئیں اور ویزگوتھوں کو شکست دے کر قرطبہ کی اموی خلافت قائم کی۔ اس فتح کے بعد انہوں نے فرانس کا رخ کیا لیکن 732ء میں ٹورز کی جنگ میں چارلس مارٹل کی زیرِ قیادت فرینکس کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔

بنیادی طور پر یہ کافی حد تک وہی کہانی ہے جو ہم نے 2022ء کے فٹبال ورلڈکپ میں دیکھی جہاں مراکش کی ٹیم نے اسپین کو تو شکست دی لیکن فرانس سے ہار گئی۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ تاریخ ضرور خود کو یاد کرواتی ہے۔

جیت یا ہار سے قطع نظر یہ ورلڈکپ یقینی طور پر فٹبال کے اسٹیج پر مراکش کی آمد کا اعلان تھا۔ مراکش کے کھلاڑیوں کا انداز بھی مختلف تھا۔ ہم نے دیکھا کہ یہ کھلاڑی اپنی ماؤں کے ساتھ میدان میں جیت کا جشن مناتے رہے۔ ایک اور ویڈیو کلپ میں ہم نے دیکھا کہ مراکش کے فٹبالر ’بونو‘ کا شیر خوار بیٹا اپنے والد کا انٹرویو لینے کے لیے استعمال ہونے والے مائیک کو کاٹنے کی کوشش کررہا ہے جیسے کہ وہ آئسکریم کون ہو۔

ورلڈ کپ کا قطر میں منعقد ہونا اور ایک عرب ٹیم کا سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنا یقیناً مسلم دنیا کے لیے بالعموم اور عرب دنیا کے لیے بالخصوص فخر کا باعث ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں قطر کی جانب سے ایونٹ کی میزبانی کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے پیش نظر اور قطر کے قوانین و ضوابط کے باعث اس ایونٹ کے ’جامع‘ ہونے کے حوالے سے خدشات کے پس منظر میں یہ بات اور بھی اہمیت اختیار کرلیتی ہے۔

ان میں سے بہت سے خدشات جائز بھی تھے جیسے قطر میں تارکین وطن مزدوروں کی حالت کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات، لیکن ان کا زیادہ تر حصہ اور جس سیاق و سباق میں اسے پیش کیا گیا وہ بداخلاقی اور منافقت پر مبنی تھا۔

مثال کے طور پر بی بی سی نے فیفا ورلڈکپ کی افتتاحی تقریب نشر نہیں کی اور اس کے بجائے قطر کی مذمت کرتا رہا۔ لیکن یہ بالکل لایعنی اقدام تھا کیونکہ یہی وہ بی بی سی ہے جو برطانیہ میں ہونے والی قطری سرمایہ کاری پر بھی خاموش رہتا ہے اور اس حقیقت پر بھی کوئی بات نہیں کرتا کہ برطانوی حکومت نے اس سرمایہ کاری کو حاصل کرنے اور قطر سمیت دیگر خلیجی ممالک کو ہتھیار فروخت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔

ان سب اقدامات کے بعد بھی بی بی سی ڈینِش ٹی وی چینل سے تو بہتر ہی رہا۔ اس چینل کے ایک میزبان نے بندروں کی ایک دوسرے کو گلے لگانے والی تصویر دکھائی اور اسے مراکشی کھلاڑیوں کو اپنے گھر والوں کو گلے لگانے سے جوڑا۔

چاہے یہ میزبان ملک کی خواہش ہو یا نہ ہو لیکن دنیا کے اسٹیج پر قطر اور مراکش کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس ورلڈکپ نے نادانستہ طور پر مسئلہ فلسطین کو بھی بخوبی اجاگر کیا۔ اس حوالے سے اٹھنے والی آوازیں عرب ریاستوں کی نہیں تھیں کہ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کررہی ہیں بلکہ یہ آوازیں ان عرب مداحوں کی تھیں جو اس ورلڈکپ کے لیے دوحہ میں موجود تھے۔

ایک کے بعد ایک منظرِ عام پر آنے والی ویڈیوز میں ہم نے دیکھا کہ عرب مداح کس طرح اسرائیلی صحافیوں کی جانب سے انٹرویو کی درخواستوں کو مذاق میں اڑا کر رد کررہے تھے۔ ان عرب مداحوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ وہ جہاں بھی کسی اسرائیلی ٹی وی عملے کو دیکھیں تو فلسطین کے حق میں نعرے لگائیں اور فلسطینی پرچم لہرائیں۔

میدان کے اندر مراکشی کھلاڑیوں نے بھی فلسطینی پرچم لہرایا۔ اس امر کو جرمن میڈیا کے کچھ حلقوں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ’یہود مخالف‘ قرار دیا۔ ہم انہیں قصور وار نہیں ٹھہراتے کیونکہ جرمن میڈیا اور جرمن ریاست اسرائیلیوں سے بھی زیادہ اسرائیلی ہونے کا رجحان رکھتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کی کھلی حمایت اور (نتیجے کے طور پر) فلسطین کی مخالفت کو ہولوکاسٹ کے کفارے کے طور پر پیش کیا ہے۔

اس کے باوجود کچھ بیانات تو بہت ہی مضحکہ خیز تھے۔ مثال کے طور پر مراکشی کھلاڑیوں کی جانب سے شہادت کی انگلی بلند کرکے اللہ کی وحدانیت کا اظہار کرنے کو ایک جرمن ٹی وی چینل نے داعش کی حمایت کا اظہار بتایا۔

اسرائیل اور اس کے معذرت خواہوں کی بدقسمتی تھی کہ فلسطین کی حمایت صرف عرب مداح ہی نہیں کررہے تھے بلکہ برازیلین مداح بھی اسٹینڈز میں بیٹھے فلسطینی پرچم لہرا رہے تھے۔ انگلش مداحوں نے بھی اسرائیلی صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کے نعرے لگائے۔

اس ’بے عزتی‘ پر اسرائیل میں شدید عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا اور اسرائیلی پولیس نے اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنے کے لیے مراکش کی جیت کا جشن منانے والے فلسطینیوں کو زد و کوب کیا۔

جہاں تک صحافیوں کی بات ہے تو اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے والی الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو اخلیح کی مغربی دنیا میں کسے پرواہ ہے؟ آخر باسل فراج، یاسر مرتضیٰ، خالد حماد، جیمز ملر، عصام الطلوی، نازیہ درویزہ، احمد ابو حسین اور دیگر تمام صحافیوں جنہیں اسرائیل نے قتل کیا ان کو کون پوچھتا ہے؟ کون ان فلسطینی بچوں اور بوڑھوں کی فکر کرتا ہے جو روزانہ اسرائیل کی گولیوں اور بموں کا نشانہ بنتے ہیں۔

آج کی دنیا میں یہ جملہ ایک فرسودہ سا خیال بن گیا ہے کہ ’کھیل لوگوں کو آپس میں جوڑتے ہیں‘ لیکن اکثر اس قسم کے جملے درست بھی ثابت ہوتے ہیں۔ اس ورلڈکپ کے حوالے سے ہم سچائی کو دنیا بھر سے آنے والے شائقین کے ردِعمل میں دیکھ سکتے ہیں جو میزبان ملک کے اقدامات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

یہاں بین الثقافتی آموزش کی مثال یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ مغربی دنیا کے لوگ شطاف جسے ہم مسلم شاور کہتے ہیں، کے کمالات سے واقف ہوگئے ہیں۔ اگر یہ لوگ قطر سے صرف یہی ایک چیز بھی سیکھ لیں تو کم از کم صفائی ستھرائی کے معاملے میں یہ ایک بڑا قدم ہوگا۔


یہ مضمون 19 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

محمد طحہ بختیار Dec 21, 2022 11:08am
بہت اچھا کالم ہے سر خوش رہیں
نعیم Dec 21, 2022 11:14pm
بہت خوب ضرار صاحب