استعفوں کی منظوری کیلئے پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کے بجائے سپریم کورٹ جانے کا اعلان

22 دسمبر 2022
شبلی فراز نے کہا کہ ہم ایک دو دن میں سپریم کورٹ جائیں گے— فائل فوٹو: اے پی پی
شبلی فراز نے کہا کہ ہم ایک دو دن میں سپریم کورٹ جائیں گے— فائل فوٹو: اے پی پی

پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے چند روز قبل ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کے لیے اسپیکر راجا پرویز اشرف کے سامنے پیش ہونے کی تصدیق کی تھی لیکن اب اپنے اس اعلان کے برعکس پارٹی اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما سینیٹر شبلی فراز نے اعلان کیا کہ اراکین اسمبلی اجتماعی استعفوں کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی کے بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق شبلی فراز نے کہا کہ ہم نے اپنے استعفوں کی منظوری کے لیے اسمبلی جانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں ہے اور عوام کی جانب سے منتخب قومی اسمبلی کو ان کے استعفوں کی منظوری کے لیے قطار میں کھڑے رہنے کا نہیں کہا جا سکتا، حکومت استعفے کے معاملے میں یہ سب کچھ بدنیتی کے ساتھ کررہی ہے، مسٹر فراز نے الزام لگایا کہ اسپیکر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی سے خیرات وصول کرنے والوں جیسا سلوک کر کے انہیں ’ذلیل‘ کرنا چاہتے ہیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے اور اس سے استدعا کریں گے کہ اسپیکر کو کوئی آٹھ ماہ قبل جمع کرائے گئے استعفے قبول کرنے کی ہدایت کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک دو دن میں سپریم کورٹ جائیں گے۔

پارٹی عدالت عظمیٰ جا رہی ہے جہاں مختلف درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ مسئلہ پہلے ہی زیر بحث آچکا ہے اور یہاں تک کہ ججوں نے بھی مشاہدہ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کو اسمبلی چھوڑنے کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ یو ٹرن نہیں ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے صرف چھ روز قبل اسپیکر کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان سے پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کے لیے کچھ وقت مختص کرنے کا کہا تھا، تو شبلی فراز نے کہا کہ وہ استعفوں کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ایک روزہ نوٹس پر قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) جمعرات کو طلب کیا ہے حالانکہ اسپیکر اس وقت ملک میں موجود بھی نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ یو ٹرن نہیں ہے، معاملے کی روح کو دیکھیں، حکومت ہمارے استعفوں کی منظوری میں تاخیر کیوں کر رہی ہے؟، اسپیکر نے صرف 11 ارکان کے استعفے منظور کرکے ’پک اینڈ چوز‘ کی پالیسی کیوں اختیار کی؟ بڑے پیمانے پر استعفے جمع کرانا پارٹی کی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ حکومت کو ملک میں قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور کیا جا سکے، دوسری صورت میں پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی کو گروپوں میں بھی استعفیٰ دینے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔

جب ان کی توجہ اسمبلی کے ان قوانین کی طرف مبذول کروائی گئی جس کے تحت اسپیکر کو استعفوں کی تصدیق کے لیے انفرادی طور پر اراکین کو بلانا ہوتا ہے، تو شبلی فراز نے الٹا سوال کیا کہ تو پھر اسپیکر نے 11 ایم این ایز کے استعفے کس قانون کے تحت قبول کیے جو ان کے سامنے اپنے استعفوں کی تصدیق کے لیے پیش بھی نہیں ہوئے؟۔

انہوں نے اسپیکر کی جانب سے 123 اراکین میں سے صرف 11 کے استعفے قبول کرنے کے پیچھے منطق پر سوال اٹھاتے ہوئے الزام لگایا کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ نمٹ رہے ہیں جن کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔

15 دسمبر کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اپنی پارٹی کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل اور اسپیکر کے سامنے پیش ہونے کے بعد ایم این ایز کے استعفوں کی منظوری کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم اپنا فیصلہ پہلے ہی کر چکے ہیں اور اس پر عملدرآمد کریں گے،، پارٹی چیئرمین عمران خان نے اسپیکر کو بھیجنے کے لیے اسے مجھے دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں