Dawnnews Television Logo

سال 2022: ’جنگ سے معاشی بحران تک‘، عالمی اُفق پر چھائے رہنے والے واقعات

روس اور یوکرین کی جنگ سے شروع ہونے والا 2022 عالمی سطح پر معاشی بدحالی سمیت مشکل سال رہا۔
اپ ڈیٹ 02 جنوری 2023 02:25pm

کورونا کی وبا کے بعد سال 2022 بھی بحرانوں اور تنازعات سے بھرپور رہا جہاں فروری میں روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو دنیا معاشی بحران کی طرف بڑھنے لگی، اسی طرح امریکا اور چین کے درمیان معاشی مخاصمت بڑھتے بڑھتے تائیوان کے معاملے پر خطرناک صورت حال اختیار کر گئی۔

ادھر سری لنکا دیوالیہ ہوا تو برطانیہ کو ملکہ ایلزبتھ کے انتقال اور معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ دو ماہ کے دوران دو وزرائے اعظم تبدیل کرنے پڑے اور ملک کی باگ دوڑ بالآخر ایک غیر برطانوی وزیر اعظم کے پاس آگئی۔

دنیا میں 2022 کے دوران پیش آنے والے بڑے واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔

روس-یوکرین جنگ

روس کے امریکا سمیت دیگر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات گزشتہ کئی برسوں سے پیچیدہ تھے، اس سے قبل بیلاروس میں صدارتی انتخاب کے دوران مغربی حمایت یافتہ امیدواروں کو قید و بند اور جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا تو مغربی ممالک نے سخت ردعمل دیا لیکن ایسے وقت میں روس مکمل طور پر بیلاروس کے ساتھ کھڑا رہا اور مدد بھی جاری رکھی۔

اس سے قبل 2014 میں روس نے بحیرہ اسود کے شمال میں ساحلی پٹی پر واقع یوکرین کے علاقے کریمیا پر قبضہ کرکے مغربی کو ایک واضح پیغام دیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر واقعات بھی رونما ہوتے رہے، جس میں امریکی صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت کی رپورٹس سامنے آئیں، یوں روس کی مغربی ممالک کے ساتھ مخاصمت بڑھتے بڑھتے یوکرین کی صورت میں ایک جنگ کا منظر بن گیا۔

یوکرین پر حملے سے قبل روس نے الزامات عائد کیے کہ امریکا کی سربراہی میں نیٹو یوکرین کو اپنا رکن بنا کر ان کی سرحدوں میں اپنی فوجیں تعینات کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس سے روس کی سلامتی خطرے میں پڑے گی اور یوکرین اور نیٹو کو خبردار کرتے کرتے بالآخر فروری کے آخر میں یوکرین پر حملے کا اعلان کیا گیا۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے 26 فروری 2022 کو یوکرین پر حملے کا حکم دیا گیا، جس کے بعد یوکرین کے دارالحکومت سمیت مختلف شہروں میں روسی افواج نے میزائل برسائے اور مختلف شہروں میں اپنی فوجیں اتاریں جبکہ کیف نے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کردیا تھا۔

  دھماکوں نے مشرقی یوکرینی شہر ڈونیٹسک کو بھی ہلا کر رکھ دیا—فائل فوٹو: رائٹرز
دھماکوں نے مشرقی یوکرینی شہر ڈونیٹسک کو بھی ہلا کر رکھ دیا—فائل فوٹو: رائٹرز

غیر ملکی خبر رساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کے مطابق روس کے فروری 2022 میں یوکرین پر حملے نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یورپ میں سب سے زیادہ خطرناک تنازع جنم دیا جبکہ 1962 میں کیوبا میزائل بحران کے بعد سے ماسکو اور مغرب کے درمیان سب سے بڑا تصادم جاری ہے۔

روس۔یوکرین تعلقات کا پس منظر

1991 میں یوکرین پہلا ملک تھا، جس نے سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کا اعلان کیا تھا جس سے سوویت یونین کو بڑا دھچکا لگا تھا۔

سویت یونین کی یوکرین میں طیارہ سازی کی صنعت اور ہیوی انجینیئرنگ کے ساتھ ساتھ بلیک سی نیوی فلیٹ بھی موجود تھی۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار بھی یوکرین میں تھے، جو یوکرین کی جانب سے آزادی کا اعلان کے بعد یوکرین کے کنٹرول میں آگئے تھے۔

آزادی کے باوجود بھی یوکرین کا معاشی انحصار روس پر رہا، پہلے یوکرین نے بلیک سی فلیٹ کو روس کے حوالے کرتے ہوئے 25 سال تک بحری اڈہ روس کے حوالے کیا اور بعد ازاں مغربی ملکوں اور روس کی ایما پر اپنے پاس موجودایٹمی ہتھیار بڑی تعداد میں تلف کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔

روس۔ یوکرین کے تعلقات میں خرابی کی ابتدا

2010 میں روسی زبان بولنے والے وکٹر یانوکووچ یوکرینی صدر منتخب ہوئے جو مبینہ نااہلی، بدعنوانی سمیت دیگر مسائل اور روس کی قربت کی وجہ سے عوام میں غیر مقبول ہوگئے تھے۔ وکٹریانوکووچ نے روس کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت یوکرین نے 15 ارب روپے مالیت کے فوائد حاصل کرتے ہوئے روس کو کریمیا میں موجود بلیک سی فلیٹ کے بحری اڈے کی لیز مزید 25 سال بڑھانے کی اجازت دی تھی اور قدرتی گیس 30 فیصد رعایت پر خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔

  روس، یوکرین کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور یوکرین اور بیلا روس کی سرحد پر ہوا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا — فوٹو: اے پی
روس، یوکرین کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور یوکرین اور بیلا روس کی سرحد پر ہوا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا — فوٹو: اے پی

معاہدے سے یوکرین کے عوام میں غصہ بڑھ گیا تھا اور سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی تھی، جسے یورو میڈان موومنٹ کا نام دیا گیا، تحریک ختم کرنے کے لیے معاہدہ ہوا تاہم یانوکووچ ساتھیوں سمیت فرار ہو کر روس چلے گئے، جسے یوکرینی بولنے والوں نے فتح تصور کیا جبکہ روسی نژاد شہری علاقے ڈونباس میں ہنگامے پھوٹ پڑے، جس کو مبینہ طور پر روس نے خانہ جنگی میں تبدیل کردیا۔

سال 2014 میں ڈونباس مزاحمت کاروں کے قبضے میں آگیا جبکہ کریمیا پر روس نے براہِ راست فوجی کارروائی کرتے ہوئے قبضہ کرلیا اور اپنی حمایت یافتہ حکومت قائم کرلی۔

روس کی جانب سے جارحانہ رویہ اختیار کیے جانے کی وجہ سے سال 2014 میں ہی یوکرین 2 خطوں میں تقسیم ہوچکا تھا اور یوکرین کے شہریوں نے اس کے بعد خود کو یورپ سے منسلک کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔

ڈونباس میں لڑائی ختم کرنے کے لیے 2014 میں مِنسک 1 (Minsk I) نامی جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا لیکن وہ برقرار نہیں رہ سکا۔ فرانس اور جرمنی کی ثالثی میں 2015 میں مِنسک 2 (Minsk II) معاہدہ ہوا۔ اس میں یوکرین کی جانب سے آئینی ترامیم بھی شامل تھیں تاکہ ڈونباس کے ان علاقوں کو مکمل خودمختاری اور ’خصوصی حیثیت‘ دی جائے جہاں روسی زبان بولی جاتی ہے۔

موجودہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے سب سے پہلے یوکرین کا روس پر انحصار ختم کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار مقامی پاور پلانٹس پر منتقل کرنے کی کوشش کی تھی، اس مقصد کے لیے 24 فروری کو یوکرین نے روس اور بیلاروس سے آنے والے گرڈ اسٹیشنز بند کرکے بجلی کی مقامی طلب یوکرین میں موجود 4 ایٹمی بجلی گھروں پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

اس تجربے کی کامیابی کی صورت میں یوکرین، روس اور بیلاروس سے بجلی کی فراہمی کے گرڈ بند کرکے یورپی گرڈ سے خود کو منسلک کرنا چاہتا تھا مگر روس نے اس سے قبل ہی یوکرین پر حملہ کردیا۔

روس۔یوکرین جنگ کے اثرات اور غذائی قلت

روس دنیا میں امریکا کے بعد سب سے بڑا توانائی پیدا کرنے والا ملک ہے، روس 60 فیصد ایندھن یورپی ملکوں کو اور 20 سے 30 فیصد ایندھن چین کو فروخت کرتا ہے۔

  —فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

اسی طرح روس اور یوکرین دنیا میں گندم کی پیداوار اور فروخت کرنے والے 2 بڑے ملک ہیں، سوویت یونین کے لیڈر ویلادیمیر لینن کا کہنا تھا کہ گندم کرنسیوں کی کرنسی ہے۔

سال 22-2021 میں روس اور یوکرین نے مجموعی طور پر 6 کروڑ ٹن گندم برآمد کی، یوکرین بحیرہ اسود سے گندم برآمد کرتا ہے، بندرگاہ پر رکاوٹ کی وجہ سے یوکرین گندم بڑے پیمانے پر برآمد کرنے سے قاصر رہا، جس کی وجہ سے اس کی عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں، روس اپنی گندم بندرگاہوں اور زمینی راستے سے برآمد کرسکتا ہے، تاہم روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے برآمدات متاثر ہوئیں۔

چونکہ پابندی کی وجہ سے روس زیادہ پیٹرول عالمی مارکیٹ میں برآمد نہیں کرسکا جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئیں اور پہلے سے ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی اور امریکا، یورپ سمیت دنیا کا تقریباً ہر ملک اس سے متاثر ہوا اور مختلف عالمی اداروں کی جانب سے توقع سے کم عالمی شرح نمو میں کمی کے اندازے لگائے گئے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسٹیلن بوش یونیورسٹی اور جے پی مورگن میں زرعی معاشیات کے سینئر محقق وانڈائل سہلوبو نے بتایا تھا کہ روس اور یوکرین عالمی گندم کا 14 فیصد پیدا کرتے ہیں اور عالمی برآمدات میں ان کا 29 فیصد حصہ ہے، دونوں ممالک بڑے پیمانے پر مکئی اور سورج مکھی کے تیل کی پیداوار بھی کرتے ہیں۔

دنیا کی بڑی فرٹیلائزر کمپنیوں میں سے ایک ’یارا‘ کے سربراہ سیون ٹور ہولیستھر نے بتایا تھا کہ فرٹیلائزر یعنی کھاد کی قیمتیں گیس کی قیمتوں کے باعث آسمان پر ہیں، روس کھاد برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے، دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو کھانا صرف کھاد کے استعمال کے نتیجے میں ملتا ہے اور اگر کھیتوں میں اس کا استعمال بند کردیا جائے تو چند ایک فصلوں کی پیداوار 50 فیصد تک کم ہو جائے گی۔

اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) نے کہا کہ عالمی معاشی نمو کی رفتار میں توقع سے زیادہ کمی ہو سکتی ہے، روس اور یوکرین جنگ کے بعد توانائی اور مہنگائی بحران کے سبب اہم معیشتوں کے کساد بازاری کا شکار ہونے کے خطرات ہیں۔

’رائٹرز‘ کے مطابق او ای سی ڈی نے بتایا تھا کہ رواں برس کے لیے عالمی معاشی شرح نمو 3 فیصد رہنے کی توقع ہے، جو 2023 میں کم ہو کر 2.2 فیصد ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے کہا تھا کہ روس کے یوکرین پر غیر قانونی حملے کے بعد معاشی بحران کی وجہ سے مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے 40 لاکھ بچے غربت کی زندگی کا شکار ہوگئے جبکہ اس تعداد میں سال بہ سال 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

نیٹو سربراہ جینز اسٹولٹن برگ نے **خبردار ** کیا تھا کہ یوکرین کی جنگ اگلے کئی برسوں تک جاری رہ سکتی ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ہنوز جاری ہے، جنگ کے خاتمے کی فی الحال کوئی صورت نظر نہیں آتی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد اس کے اثرات سے نکلنے کے لیے دنیا کو کتنا عرصہ درکار ہوگا۔

25 دسمبر کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کی جنگ میں شامل تمام فریقین کے ساتھ مذاکرات کی پیش کش کی تھی لیکن یوکرین اور اس کے مغربی حامیوں نے بات چیت سے انکار کر دیا تھا۔

سری لنکا دیوالیہ، مظاہرے اور سیاسی بحران

سری لنکا نے اپریل 2022 میں 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کے باعث خود کو دیوالیہ قرار دے دیا تھا جبکہ ملک کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران اور مظاہرین کی جانب سے حکومت کو مسلسل استعفے کے مطالبے کا سامنا تھا۔

  1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث بدترین معاشی حالات ہیں—فوٹو:اے ایف پی
1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث بدترین معاشی حالات ہیں—فوٹو:اے ایف پی

سری لنکا میں خوراک اور ایندھن کی شدید قلت کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی بجلی کی طویل بندش کے باعث ملک کے 2 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو 1948 میں آزادی کے بعد سے سب سے زیادہ تکلیف دہ بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

معاشی پالیسیوں کے علاوہ سیاسی عدم استحکام کو بھی سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا، حکومت کمزور ہوئی تو سرمایہ کاروں نے سرمایہ بیرون ممالک منتقل کیا، عدم اعتماد کی وجہ سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سری لنکا میں کام بند کرنا شروع کر دیا اور ٹیکس سے ہونے والی آمدنی کم ہوگئی، قرضوں کی قسط ادا کرنے کا وقت آیا تو سری لنکا کے زرِمبادلہ کے ذخائر ناکافی تھے اور مجبوراً سری لنکا کے وزیرِاعظم نے ملک کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا۔

جون میں سری لنکا میں صورت حال بدتر ہوگئی تھی اور شہریوں کے لیے پیٹرول کا حصول مشکل ہو گیا، جہاں ڈاکٹروں اور بینکروں سمیت ہزاروں افراد نے احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ معاشی بحران کے دوران ایندھن کی بدترین قلت کا مسئلہ حل کرے ورنہ مستعفی ہوجائے۔

  احتجاج میں اساتذہ اور بینکرز یونین کے علاوہ دیگر شعبوں کے افراد بھی شامل ہتھے—فوٹو: رائٹرز
احتجاج میں اساتذہ اور بینکرز یونین کے علاوہ دیگر شعبوں کے افراد بھی شامل ہتھے—فوٹو: رائٹرز

اس سے قبل مئی میں سری لنکا کے وزیراعظم مہندا راجاپکسے نے ملک میں پرتشدد احتجاج پر استعفیٰ دے دیا تھا اور استعفیٰ اپنے چھوٹے بھائی اور صدر راجا گوٹابایا راجاپکسے کو بھیج دیا تھا، جہاں حکومت مخالف احتجاج کے دوران 78 افراد زخمی ہوئے تھے۔

معاشی بحران کے درمیان مزید مظاہروں کے پیش نظر سری لنکا کے وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے نے قائم مقام صدر کے طور پر اقدام کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کردیا تھا۔

سیکڑوں مظاہرین نے سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجاپکسے کے محل پر قبضہ کرکے انہیں مالدیپ فرار ہونے پر مجبور کیا۔

20 جولائی کو سری لنکا کے 6 مرتبہ کے سابق وزیراعظم رانیل وکرماسنگھے ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے تھے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر جارج لاریہ-اڈجی نے اگست میں کہا تھا کہ اس بحران کو ان خاندانوں نے شدت سے محسوس کیا جو ’معمول کا کھانا چھوڑ رہے تھے‘ کیونکہ اجناس قوت خرید سے باہر ہوتے جا رہے تھے، انہوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’بچے بھوکے سو رہے ہیں اور انہیں یقین نہیں ہے کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا‘۔

سری لنکا میں اب بھی صورت حال کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے تاہم سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے ستمبر میں ابتدائی طور پر سری لنکا کو 48 ماہ کے لیے 2.9 ارب ڈالر کا قرضہ دینے پر اتفاق کیا تاکہ بحران سے متاثرہ جنوبی ایشیائی ملک کو معاشی استحکام بحال کرنے میں مدد ملے۔

سری لنکا کے وزیر خارجہ نے 15 دسمبر کو بتایا تھا کہ سری لنکا آئی ایم ایف معاہدے کے علاوہ کثیر الجہتی ایجنسیوں سے اگلے سال 5 ارب ڈالر کے قرضے لینے کی توقع کر رہا ہے، اس کے علاوہ حکومت کا ریاستی اثاثوں کی تنظیم نو کے ذریعے 3 ارب ڈالر تک اکٹھا کرنے کا ہدف ہے۔

اگر سری لنکا آئی ایم ایف سے قرض لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اس کے بعد سیاسی استحکام آتا ہے تو پھر امید کی جاسکتی ہے کہ اگلا برس جنوبی ایشیائی جزیرے کے لوگوں کے لیے بہتر ثابت ہوگا اور انہیں کسی حد تک ریلیف مل سکے گا۔

جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کا تہلکہ

  جیمز ویب دُور بین سے کھینچی گئی پہلی تصویر— تصویر:ناسا، ای ایس اے، سی ایس اے، ایس ٹی ایس سی آئی
جیمز ویب دُور بین سے کھینچی گئی پہلی تصویر— تصویر:ناسا، ای ایس اے، سی ایس اے، ایس ٹی ایس سی آئی

علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

سائنس کی دنیا میں مہنگا ترین منصوبہ تصور کیے جانے والے ناسا کے ’جیمز ویب ٹیلی اسکوپ‘ نے 2022 میں تہلکہ مچادیا اور کائنات کے کئی چھپے رازوں سے پردہ اٹھانے کی جانب ایک ناقابل یقین مناظر دکھائے۔ ناسا، یورپین اسپیس ایجنسی اور کینیڈین اسپیس ایجنسی کا مشترکہ منصوبہ اور نارتھروپ گرومان، بال ایروسپیس اینڈ ٹیکنالوجی کا تیار کردہ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ 25 دسمبر 2021 کو گیانا اسپیس سینٹر سے خلا میں بھیجا گیا اور توقع ظاہر کی گئی کہ یہ ٹیلی اسکوپ کائنات کی کاریگری کی تصاویر انسانی آنکھوں تک پہنچائے گا۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ ایک خلائی ٹیلی اسکوپ ہے جس نے انفراریڈ کیمرے کے ذریعے ایک ارب سے زائد سال پرانی تصویر کھینچی، اس کا نام انسان کو چاند پر پاؤں جمانے کے لیے کامیاب منصوبہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے امریکی سائنس دان اور ناسا کے سابق سربراہ جیمز ایڈون ویب کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔

ناسا کی ویب سائٹ نے اس کی تفصیلات بھی جاری کی تھیں اور امریکی صدر جوبائیڈن نے 11 جولائی 2022 کو وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران کہکشاؤں کے جھرمٹ کی تصویر ایس ایم اے سی ایس 0723 جاری کی، جس کو ویبز ڈیپ فیلڈ کا نام دیا گیا۔ یہ تصویر جسامت کے لحاظ سے تقریباً بازو کی لمبائی میں ریت کے ایک ذرے کے جتنی ہے جو وسیع دنیا میں چھوٹا سا ذرہ ہے۔

رپورٹ میں ناسا نے بتایا کہ کہکشاں کا یہ جھرمٹ گریویٹیشنل لینس کے طور پر کام کرتا ہے اور بہت دور موجود کہکشاؤں کو واضح کرتا ہے، جن میں سے کچھ ایسی بھی نظر آئیں جو اس وقت تھی جب کائنات کی عمر ایک ارب سال سے بھی کم تھی۔ یہ تصویر مختلف ویو لینتھ سے مجموعی طور پر 12 گھنٹے 50 منٹ میں تیار کی گئی تھی۔

  جیمز ویب دُوربین سے لی گئی سدرن رنگ نیبیلوا کی تصویر— ناسا، ای ایس اے، سی ایس اے، ایس ٹی ایس سی آئی
جیمز ویب دُوربین سے لی گئی سدرن رنگ نیبیلوا کی تصویر— ناسا، ای ایس اے، سی ایس اے، ایس ٹی ایس سی آئی

ناسا نے بتایا تھا کہ یہ تو ابھی شروعات ہیں مگر ’آرہی صدائے دمادم کن فیکون‘ کے مصداق سائنس دان مزید بڑے انکشافات کے لیے جیمز ویب کا استعمال جاری رکھیں گے اور ہماری لامحدود کائنات کے رازوں سے پردے ہٹاتے جائیں گے۔

امریکا سے 11 جولائی کو جاری کی گئی تصویر کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ 4.6 ارب سال پرانی کہکشاں ایس ایم اے سی ایس 0723 ہے، جس کے آگے پیچھے مزید جھرمٹ ہیں۔ ناسا نے بتایا ان تصاویر کے ساتھ ساتھ جیمز ویب کے آلات نے اسپیکٹرا بھی حاصل کرلیا، اسپیکٹرا آبجیکٹ کا جسمانی اور کیمیکل اثاثہ ہے، جو سائنس دانوں کو اس میدان میں بہت دور موجود کہکشاؤں کی تفصیلات فراہم کرے گا۔

ناسا کی سربراہی میں یورپین اسپیس ایجنسی اور کینیڈین اسپیس ایجنسی کی شراکت میں جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ ایک بین الاقوامی پروگرام ہے اور یہ دنیا کا پہلا اسپیس سائنس آبزرویٹری ہے۔ ناسا ہیڈکوارٹرز، ایجنسی کے سائنس مشن ڈائریکٹوریٹ کے لیے مشن کی نگرانی کر رہا تھا۔

این آئی آر سی اے ایم کو ایریزونا یونیورسٹی اور لوکھیڈ مارٹنز ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی سینٹر میں ایک ٹیم کی جانب سے تعمیر کیا گیا ہے۔

عالمی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ناسا کے سربراہ بل نیلسن نے نئے رازوں کے دریافت کی امید ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اورجو روشنی آپ یہاں دیکھ رہے ہیں وہ 13 ارب سال کی مسافت طے کر کے یہاں تک پہنچی ہے لیکن ہم اس سے بھی پیچھے جا رہے ہیں کیوں کہ یہ تو صرف پہلی تصویر ہے۔ ہم تقریباً 13 ارب سال پیچھے تک جارہے تھے اور ہم جانتے ہیں کہ کائنات 13 اعشاریہ 8 ارب سال پرانی ہے تو دراصل ہم کائنات کی ابتدا تک پہنچ رہے ہیں۔

تائیوان اور چین-امریکا تنازع

  امریکا اور چین کے درمیان تنازع شدت اختیار کرگیا— تصویر: رائٹرز
امریکا اور چین کے درمیان تنازع شدت اختیار کرگیا— تصویر: رائٹرز

مشرقی ایشیائی ریاست تائیوان ایک نیم خود مختار ریاست ہے اور چین اس کو اپنے زیر انتظام ریاست قرار دے چکا ہے، 168 چھوٹے بڑے جزیروں پر مشتمل 36 ہزار 193 مربع کلومیٹر پر پھیلے تائیوان کے شمال مغرب میں چین، شمال مشرق میں جاپان اور جنوب میں فلپائن واقع ہے اور دارالحکومت تائی پے یہاں کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔

وکی پیڈیا کے مطابق 1683 میں چین کے حکمران نے تائیوان کا الحاق کروایا اور جاپان کی بادشاہت کے حوالے کردیا تاہم 1911 میں چین نے یہاں سے جاپانی اثر و رسوخ ختم کرکے اپنے ماتحت کرلیا، اس کے بعد تائیوان اور چین کے درمیان ایک کشمکش کا آغاز بھی ہوجاتا ہے تاہم 1990 کے اوائل میں چین نے تائیوان کو نیم خود مختار ریاست قرار دے کر تنازع حل کر دیا تھا۔

امریکا کی اس تنازع میں ایک طویل تاریخ ہے جو چین میں کمیونسٹ پارٹی اور قوم پرستوں کے درمیان لڑائی سے جوڑی جاتی ہے جہاں قوم پرست ناکامی کے بعد تائیوان میں پناہ گزین ہوگئے تھے جبکہ امریکا نے تائیوان کے ساتھ 1950 میں ایک دفاعی معاہدہ کیا تھا جو دراصل چین اور امریکا کے درمیان تنازع کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔

چین کو امریکا کی جانب سے تائیوان کے ساتھ براہ راست تعلقات اور معاہدوں پر اعتراض ہے اور خبردار کرتا رہا ہے جبکہ امریکا کا مؤقف اس سے الگ ہے اور تائیوان کو مکمل آزاد ریاست تسلیم کرتا ہے اور بعض اوقات چین پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ تائیوان کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت کرتا ہے اور جمہوری نظام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ تائیوان میں چین کے برعکس جمہوری پارلیمانی مگر نیم صدارتی نظام رائج ہے۔

چین اور امریکا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں عروج پر تھی جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کیں اور ٹیرف میں اضافہ کردیا تاہم صدر جوبائیڈن کے آنے کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ تعلقات میں تلخی کم ہوگی لیکن رواں برس فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی شروع کی۔

امریکی اسپیکر نینسی پلوسی نے اگست میں تائیوان کا دورہ کیا، جس کی چین نے انتہائی مخالفت کی، اس دورے کی وجہ سے دونوں ممالک میں ایک مرتبہ پھر کشیدگی بڑھی۔ چین کی تنبیہ کے باوجود امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی 15 اگست 2022 کو فوجی طیارے میں تائیوان پہنچ گئیں جو کہ 25 برس بعد کسی امریکی عہدیدار کا پہلا دورہ تھا۔

  امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی اگست میں تائیوان پہنچی تھیں —فائل/فوٹو: رائٹرز
امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی اگست میں تائیوان پہنچی تھیں —فائل/فوٹو: رائٹرز

دوسری جانب چین نے آبنائے تائیوان میں فوجی مشقیں جاری رکھیں اور خدشہ پیدا ہوا کہیں ایک دوسرے کی تنصیبات کو نقصان نہ پہنچے اور تصادم نہ ہو کیونکہ چین کے وزیر خارجہ نے اس حوالے سے سخت بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی سیاست دان تائیوان کے حوالے سے آگ سے کھیل رہے ہیں اور اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اس سے قبل جون میں ہی چینی وزیر دفاع نے واضح کیا تھا کہ تائیوان کے معاملے پر چین جنگ شروع کرنے سے ہرگز نہیں ہچکچائے گا۔

امریکا نے تائیوان کے معاملے پر چین کو زچ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور ستمبر میں ایک مرتبہ پھر خبردار کیا اور الزام عائد کیا کہ چین نے تائیوان پر حملے کی منصوبہ بندی کی ہے اور ممکنہ حملہ روکنے کے لیے مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ پھر اکتوبر میں جوبائیڈن نے ایک بیان میں برملا کہا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکا اس کا دفاع کرے گا، اس سے قبل چین نے تائیوان کے اطراف فضائی مشقیں شروع کی تھیں اور کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو طاقت کے زور پر تائیوان پر قبضہ کرلیں گے۔

ملکہ برطانیہ کا انتقال اور چارلس نئے بادشاہ

  ملکہ برطانیہ نے انتقال سے دو روز قبل ہی لزٹرس سے ملاقات کی تھی—فوٹو: رائٹرز
ملکہ برطانیہ نے انتقال سے دو روز قبل ہی لزٹرس سے ملاقات کی تھی—فوٹو: رائٹرز

برطانیہ کی تاریخ میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی ملکہ الزبتھ دوم 8 ستمبر 2022 کو اسکاٹ لینڈ میں 96 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ یکم اپریل 1926 کو مے فیئر میں آنکھ کھولنے والی ملکہ برطانیہ 6 فروری 1952 کو اپنے والد کنگ جارج ششم کے انتقال کے بعد صرف 25 برس کی عمر میں تخت پر بیٹھی تھیں اور جون 1952 میں تاج پہنا تھا۔ ملکہ الزبتھ نے فروری 2022 میں حکمرانی کے 70 برس مکمل کر لیے تھے اور وفات سے ایک ماہ قبل ہی طویل ترین حکمرانی کا اعزاز بھی حاصل کر لیا تھا۔

برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم کی آخری رسومات 20 ستمبر کو ویسٹ منسٹر ایبے کے اندر ادا کی گئیں اور تابوت ونڈزر کارسل میں سینٹ جارج چیپل کے رائل والٹ میں اتار دیا گیا۔ ملکہ الزبتھ دوم کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف بھی لندن پہنچے جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے صدور، وزرائے اعظم اور غیر ملکی شاہی خاندان کے افراد اور معززین سمیت 500 غیر ملکی نمائندوں نے شرکت کی اور اس وقت 2 ہزار افراد جمع ہوئے تھے۔ جس کے بعد ونڈزر کیسل میں سینٹ جارج چیپل میں ان کی تدفین کی گئی۔

ملکہ الزبتھ کے 73 سالہ بڑے صاحبزادے چارلس اپنی والدہ کے انتقال کے ایک روز بعد 9 ستمبر کو تخت نشین ہوئے اور برطانیہ کے عمر رسیدہ بادشاہ بن گئے۔

ملکہ الزبتھ کی وفات پربرطانیہ کے علاوہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان کیا گیا اور اس روز ملک بھر میں قومی پرچم سرنگوں رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ملکہ الزبتھ کی وفات سے دو روز قبل ہی اس وقت کی نئی وزیر اعظم لز ٹرس نے ان سے ملاقات کی تھی اور ان کا ہاتھ چوم کر باقاعدہ وزیراعظم بننے کی پیشکش قبول کی تھی۔ انہیں برطانیہ کی بااثر ترین حکمران قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کے ساتھ مزید کئی سیاسی تنازعات جوڑے جاتے ہیں اور یہ سب فلموں اور ڈراموں میں دکھائے جاچکے ہیں۔

ایران مہسا امینی کی موت کے بعد مظاہروں کی لپیٹ میں

ایران میں 16 ستمبر 2022 کو اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ’غیر موزوں لباس‘ کے باعث گرفتار 22 سالہ ایرانی کرد مہسا امینی کی دوران حراست موت ہو گئی تھی، جس کے بعد سے ملک گیر مظاہرے پھوٹ پڑے۔

واقعے پر عوام نے شدید ردعمل دیا اور ایران بھر میں جاری احتجاج کو 1979 میں اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد سے اب تک کے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے۔

  خواتین کی زیر قیادت ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا— فائل فوٹو : اے ایف پی
خواتین کی زیر قیادت ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا— فائل فوٹو : اے ایف پی

امریکا اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک میں بھی لوگوں نے ایران کے مظاہرین سے اظہار یک جہتی کے لیے مارچ کیا تھا۔

  — فوٹو: اے ایف پی
— فوٹو: اے ایف پی

ایران کا سرکاری مؤقف ہے کہ تحقیقات کے مطابق مہسا امینی کی موت سر پر چوٹ لگنے کے بجائے کسی بیماری کی وجہ سے ہوئی جس کا وہ طویل عرصے سے شکار تھیں، تاہم ان کے اہل خانہ نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بالکل صحت مند تھیں۔

مہسا امینی کے والد نے بتایا تھا کہ انہیں صحت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا تاہم پولیس حراست کے دوران ان کی ٹانگوں پر زخم آئے، انہوں نے پولیس کو اپنی بیٹی کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

دسمبر میں ایران کی عدالت نے مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں ملوث ہونے کے الزام میں 400 افراد کو 10 سال سے زائد تک قید کی سزائیں سنادی۔

10 دسمبر کو یورپی یونین نے ایران میں جاری پُرتشدد مظاہروں کے دوران پھانسی کی پہلی سزا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایران کے اس اقدام کے بعد عالمی برادری سمیت یورپی یونین نے پھانسی کی سزا دینے کی شدید مذمت کی تھی۔

  16ستمبر کو احتجاج شروع ہونے کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
16ستمبر کو احتجاج شروع ہونے کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

4 دسمبر کو ایران نے مہسا امینی کی دوران حراست ہلاکت کے خلاف دو ماہ کے مسلسل پُرتشدد مظاہروں کے بعد اپنی اخلاقی پولیس کو ختم کر دیا۔

ایران کے اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری نے کہا کہ اخلاقی پولیس کا عدلیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کو ختم کیا گیا ہے۔

دسمبر کے اوائل ہی میں شہرہ آفاق امریکی جریدے ٹائم میگزین نے اپنے سالانہ ہیروز آف دی ایئر’ کی شخصیت کا اعلان کرتے ہوئے یہ اعزاز ایران کی خواتین کو دیا تھا، میگزین نے ایران میں جاری مظاہروں میں ان کی ہمت کا اعتراف کیا۔

اکتوبر کے اوائل میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کی لہر کو بڑھکانے کا الزام دشمن ممالک امریکا اور اسرائیل پر عائد کیا۔

  ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ نوجوان خاتون کی ہلاکت پر ہمیں بھی دلی افسوس ہوا ہے —فوٹو: رائٹرز
ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ نوجوان خاتون کی ہلاکت پر ہمیں بھی دلی افسوس ہوا ہے —فوٹو: رائٹرز

آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ ’میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ تنازعات اور غیریقینی صورت حال امریکا اور قابض، جھوٹی صیہونی حکومت اور ان کے ایجنٹوں نے بیرونِ ملک بیٹھے چند غدار ایرانیوں کی مدد سے پیدا کی ہی‘۔

نوجوان خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد پہلی بار عوامی خطاب میں ایران کے 83 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے پولیس پر مجرموں کے خلاف کارروائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی پولیس پر حملہ کرتا ہے وہ لوگوں کو مجرموں، ٹھگوں اور چوروں سے غیر محفوظ کرتا ہے۔

مہسا امینی کی موت اور اس کے بعد مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن مغربی ممالک کے ساتھ ایران کے پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات میں مزید مشکلات پیدا کردیے جو عالمی قوتوں سے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات میں خلل پیدا کر رہی ہیں۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی بہن نے ملک میں جاری مظاہروں پر حکومت کے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے پاسداران انقلاب سے عوام کے خلاف ہتھیار استعمال نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

15 دسمبر کو اقوام متحدہ نے ایران کو کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن (سی ایس ڈبلیو) سے نکال دیا تھا۔

ایران میں مظاہرے اب بھی جاری ہیں اور مغربی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں۔

برطانیہ میں پہلے غیر برطانوی وزیراعظم کا انتخاب

برطانیہ کے لیے 2022 ایک ہنگامہ خیز سال رہا جہاں ملکہ برطانیہ دنیا سے گزر گئیں تو وہیں ملک میں معاشی گراوٹ کے باعث دو ماہ سے زائد عرصے میں ملک میں تین وزرائے اعظم رہے، مگر بحسن خوبی تیسرا وزیر اعظم منصب پر بیٹھ گیا اور یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

  گولڈمین سیچز کے سابق تجزیہ کار برطانیہ کے پہلے بھارتی نژاد وزیر اعظم بن گئے — فوٹو: رائٹرز
گولڈمین سیچز کے سابق تجزیہ کار برطانیہ کے پہلے بھارتی نژاد وزیر اعظم بن گئے — فوٹو: رائٹرز

بریگزٹ (یورپی یونین سے علیحدگی) کے بعد برطانیہ کے وزرائے اعظم اپنی مدت مکمل کیے بغیر استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے اور کنزرویٹو پارٹی نے نیا قائد اور ملک کے وزیر اعظم کا انتخاب کیا۔ جون 2016 میں ایک ریفرنڈم میں برطانیہ کے عوام نے اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے مؤقف کے برخلاف ووٹ دیتے ہوئے ملک کے یورپی یونین سے علیحدگی کی راہ ہموار کی، ریفرنڈم میں ریکارڈ 72 فیصد سے زائد ووٹرز نے حصہ لیا اور علیحدگی کے حق میں 51.8 فیصد جبکہ مخالفت میں 48.2 فیصد افراد نے ووٹ دیا تھا۔ ریفرنڈم کے نتائج آنے کے فوری بعد برطانوی پاؤنڈ کی قدر میں نمایاں کمی دیکھی گئی تھی۔

اس ریفرنڈم کے بعد پہلے 14جولائی 2016 کو وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے مدت مکمل ہونے سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ تھریسامے نئی وزیراعظم منتخب ہوگئیں اور وہ سابق وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے بعد برطانیہ کی دوسری خاتون وزیر اعظم تھیں۔

انہوں نے بریگزٹ کے معاہدے مکمل کیے بغیر 7 جون 2019 کو اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ بورس جانسن نئے وزیراعظم بن گئے اور انہوں نے بریگزٹ معاہدوں کو حتمی شکل دی۔

بورس جانسن کو کووڈ کے دوران بھی اسکینڈلز اور تنقید کا سامنا رہا اور 7 جولائی 2022 کو مختلف اسکینڈلز کے باعث ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کرنے پر انہیں کنزرویٹو پارٹی کی قیادت اور وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینا پڑا۔

لز ٹرس 5 ستمبر 2022 کو برطانیہ کی نئی اور تیسری خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور ملکہ الزبتھ کے انتقال سے دو روز قبل ہی ان کا ہاتھ چوم کر وزیراعظم بنیں، وہ اس سے قبل بورس جانسن کی کابینہ میں سیکریٹری خارجہ کی حیثیت سے امور انجام دے رہی تھیں۔

انہوں نے ملک میں معاشی اصلاحات اور فوری ٹیکس ریلیف کے اعلانات کیے تھے تاہم وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد وہ ناکام ہوئیں اور پارٹی کے اندر بھی اختلافات رپورٹ ہوئے اور پارٹی منقسم ہوئی، جس کے نتیجے میں انہیں 20 اکتوبر 2022 کو وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے صرف دوسرے مہینے میں ہی منصب چھوڑنا پڑا۔

  رشی سوناک بورس جانسن کی کابینہ میں وزیرخزانہ تھے— فوٹو: رائٹرز
رشی سوناک بورس جانسن کی کابینہ میں وزیرخزانہ تھے— فوٹو: رائٹرز

برطانیہ کی تاریخ میں دو مہینوں کے مختصر وقت میں تیسرا وزیراعظم منتخب ہوا اور پہلی مرتبہ بھارتی نژاد رشی سوناک نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ رشی سوناک 25 اکتوبر 2022 کو اس وقت برطانیہ کے وزیراعظم منتخب ہوئے جب کنزرویٹو پارٹی کے دیگر امیدوار ان کے حق میں دستبردار ہوگئے۔

رشی سوناک کو اس سے قبل بورس جانسن کا قریبی سمجھا جاتا تھا اور ان کی کابینہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیے، جس کے بعد لز ٹرس کی کابینہ کا حصہ بھی بنے۔ انہوں نے تجزیہ کاروں کو بورس جانسن کی کابینہ سے اچانک استعفیٰ دے کر ورطہ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ بورس جانسن کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے کئی وزرا نے استعفیٰ دے دیا تھا تاہم ان کے استعفے کے بعد بورس جانسن کی نیا ڈوب گئی۔

رشی سوناک کو برطانیہ کی سیاست میں اس وقت نمایاں مقام ملا اور دنیا میں متعارف ہوئے جب 39 برس کی عمر میں بورس جانسن کے دور میں دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک کے وزیر خزانہ بنے اور کورونا کی وبا کے دوران معیشت کو سنبھالا۔

برطانیہ کے پہلے ایشیائی نژاد وزیراعظم رشی سوناک کے اہل خانہ 1960 کی دہائی میں برطانیہ منتقل ہوگئے تھے، جہاں پر برطانیہ کی سابق کالونیوں سے بڑی تعداد میں لوگ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ چلے گئے تھے۔

رشی سوناک نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔

رشی سوناک کی آکسفورڈ میں تعلیم کے دوران بھارت سے تعلق رکھنے والی اکشاتا مورتی سے ملاقات ہوئی اور بعد ازاں ان کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا، ان کی اہلیہ اکشاتا مورتی کے والد نریانا مورتی بھارت کے ارب پتی اور مشہور کمپنی انفوسس لمیٹڈ کے بانی ہیں۔

برطانیہ کو امید ہے کہ ملکی معیشت چلانے کا تجربہ رکھنے والے وزیر اعظم رشی سوناک بریگزٹ کے بعد بحرانوں سے دو چار معیشت کو دوبارہ کھویا ہوا مقام دلائیں گے اور برطانیہ کا سیاسی اور معاشی بحران حل ہوجائے گا۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سخت فیصلے کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ کہ وہ سابقہ حکمرانوں کا چھوڑا گیا گند صاف کرنے، سیاست پر اعتماد بحال کرنے اور سنگین معاشی بحران سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

دنیا کو 50-40 سال کی بلُند ترین مہنگائی کا سامنا

سال 2022 میں دنیا کے تقریباً بیشتر ممالک کو معاشی چیلنجز بھی درپیش رہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی رہا جس سے امریکا، برطانیہ، یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کو بھی دہائیوں کی بُلند ترین افراط زر کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مرکزی بینکوں نے شرح سود میں بھی اضافہ کیا اور اس کی وجہ سے معاشی شرح نمو میں کمی واقع ہوئی۔

جون کے مہینے میں امریکا میں مہنگائی 40 سال کی بُلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی، لیبر ڈپارٹمنٹ نے رپورٹ کیا تھا کہ گزشتہ 12 ماہ کے دوران جون تک کنزیومر پرائس انڈیکس میں 9.1 فیصد اضافہ ہوا جو نومبر 1981 کے بعد تیز ترین اضافہ ہے، اسی طرح پیٹرول کی قیمت میں 59.9 فیصد کا حیران کن اضافہ ہوا تھا، توانائی کی مجموعی قیمتوں میں اپریل 1980 کے بعد سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہوا۔

  ماہانہ بنیادوں پر ہونے والے اس اضافے میں سے نصف کی وجہ توانائی ہے— فوٹو: اے ایف پی
ماہانہ بنیادوں پر ہونے والے اس اضافے میں سے نصف کی وجہ توانائی ہے— فوٹو: اے ایف پی

بڑھتی ہوئی مہنگائی سے لڑتے ہوئے امریکی فیڈرل ریزرو نے تقریباً 30 برسوں میں شرح سود میں سب سے زیادہ جارحانہ اضافے کا اعلان کرتے ہوئے قرض لینے کی بینچ مارک شرح میں 0.75 فیصد پوائنٹس کا اضافہ کردیا تھا۔

برطانیہ میں بھی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے سبب جولائی میں مہنگائی 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی، جس کے سبب ملک میں کساد بازاری کے امکانات پیدا ہوگئے تھے، شماریات کے دفتر نے بتایا کہ پچھلے مہینے کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) تیزی سے بڑھ کر 10.1 فیصد تک پہنچ گیا جو جون میں 9.4 فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے بعد سی پی آئی 40 سال کی تاریخی بُلند سطح تک پہنچ گیا۔

اسی طرح سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یورپ میں بھی مہنگائی اگست میں تاریخ کی بُلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی، یورو اسٹیٹ کے مطابق یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے توانائی کی زیادہ قیمتوں کے سبب مہنگائی میں اضافہ ہوا، یورپ کے 19 ممالک کی کرنسی میں سالانہ افراط زر کی شرح 9.1 فیصد تک پہنچ گئی جو ریکارڈ رکھنے سے اب تک سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

نومبر میں دنیا میں سب سے زیادہ مہنگائی زمبابوے میں 255 فیصد ریکارڈ کی گئی، ویزلو کیپٹلسٹ کی ویب سائٹ کے مطابق اکتوبر 2022 میں لبنان میں 162 فیصد، وینزویلا میں 156 فیصد، شام میں 139 فیصد اور سوڈان میں 103 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

  — فائل فوٹو: شہاب نفیس
— فائل فوٹو: شہاب نفیس

پاکستان میں بھی مہنگائی بے قابو رہی اور اگست میں 49 سال کی بلُند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی، پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اگست میں صارف قیمت انڈیکس سے پیمائش کردہ مہنگائی سالانہ اعتبار سے 27.26 فیصد کی سطح تک جاپہنچی تھی، پی بی ایس کے ایک عہدیدار نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا تھا کہ اگست کی 27.26 فیصد افراطِ زر ملکی تاریخ میں ریکارڈ کی گئی دوسری سب سے بلند ترین شرح ہے۔

سابق جاپانی وزیراعظم شنزو آبے کا قتل

رواں برس جولائی میں طویل عرصے تک جاپان کے وزیر اعظم رہنے والے شنزو آبے کو قتل کر دیا گیا، اسے جدید جاپان کی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ قرار دیا گیا۔

  جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو آبے— فائل فوٹو: رائٹرز
جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو آبے— فائل فوٹو: رائٹرز

شنزو آبے کو 8 جولائی کی صبح ساڑھے گیارہ بجے دارالحکومت ٹوکیو سے 300 کلو میٹر کی مسافت پر واقع چھوٹے سے شہر نارا میں ہونے والے ایک چھوٹے جلسے میں ایک ملزم نے فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا، جنہیں تشویش ناک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے تھے۔

ان کے قتل پر نہ صرف جاپانی بلکہ دنیا بھر کے لوگ صدمے کا شکار ہوئے تھے، زیادہ تر افراد اس بات پر حیران تھے کہ جاپان جیسے ملک میں بھی سیاستدانوں پر قاتلانہ حملے ہوتے ہیں۔

انہوں نے جاپان کے طویل عرصے تک وزیراعظم رہنے کا ریکارڈ بنایا، وہ 2006 میں 52 سال کی عمر میں پہلی بار جاپان کے وزیر اعظم بنے تھے، جنہیں اقتصادی اصلاحات اور اسکینڈلز کا مقابلہ کرتے ہوئے اہم سفارتی تعلقات قائم کرنے کا چیمپئن سمجھا جاتا تھا۔

شنزو آبے کی آخری رسومات میں ملکی تاریخ کے 55 برسوں میں پہلی مرتبہ مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ 19 توپوں کی سلامی دی گئی تھی۔

آخری رسومات میں امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور عالمی رہنماؤں بشمول بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے شرکت کی تھی۔


مرتب کردہ: محمد یوسف، عاصم علی خان