سری لنکا کے وزیراعظم نے پرتشدد احتجاج پر استعفیٰ دے دیا

اپ ڈیٹ 09 مئ 2022
مہیندا راجاپکسا نے استعفیٰ صدر کو بھیجوا دیا—فائل/فوٹو: رائٹرز
مہیندا راجاپکسا نے استعفیٰ صدر کو بھیجوا دیا—فائل/فوٹو: رائٹرز

سری لنکا کے وزیراعظم مہیندا راجاپکسا نے ملک میں پرتشدد احتجاج پر استعفیٰ دے دیا، جہاں حکومت مخالف احتجاج کے دوران 78 افراد زخمی ہوئے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کے مطابق سری لنکا کے وزیراعظم راجا پکسے کے ترجمان روہان ویلیویٹا نے کہا کہ 76 سالہ وزیراعظم نے اپنا استعفیٰ اپنے چھوٹے بھائی اور صدر گوٹابایا راجاپکسا کو بھیج دیا ہے۔

مزید پڑھیں: سری لنکا: جھڑپوں میں 20 افراد زخمی ہونے کے بعد کولمبو میں کرفیو

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے نئی متحدہ حکومت کے لیے ایک راستہ دے دیا ہے۔

مہندا راجا پکسے نے ٹوئٹ میں کہا کہ میں بحیثیت وزیراعظم استعفیٰ صدر کو پیش کردیا ہے، اس پر فور عمل درآمد ہوگا

قبل ازیں سری لنکا کی حکومت نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے احتجاج کے دوران درجنوں افراد کو زخمی ہونے کے بعد ہسپتالوں میں داخل ہونے پر فوج تعینات کی تھی اور احتجاج کے دوران لاٹھیوں سے مسلح حکومت کے حامیوں نے مظاہرین پر حملہ کردیا تھا۔

سری لنکا کے تعینات امریکی سفیر نے پرامن مظاہرین کے خلاف کشیدگی کی مذمت کی تھی اور حکومت سے کشیدگی کے لیے اکسانے والوں کی گرفتاری سمیت مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

امریکی سفیر جولی چنگ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ‘آج زخمی ہونے والوں کے ساتھ ہمدردی ہے اور ہم ملک بھر میں تحمل اور برداشت کے لیے زور دے رہے ہیں’۔

خیال رہے کہ سری لنکا میں آزادی کے بعد بدترین معاشی بحران کا شکار ہے جہاں کئی مہینوں سے توانائی، غذائی اجناس اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے جبکہ عوام کی جانب سے حکومت کے خلاف پرامن احتجاج کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکا: وزیر اعظم کے سامنے آنے پر عوام کا شدید ردعمل

تاہم پیر کو دارالحکومت کولمبو میں بدترین احتجاج شروع ہوا جبکہ صدر اور وزیراعظم کے حامیوں کی بڑی تعداد بھی سڑکوں پر آگئی تھی اور ہنگامہ آرائی کی۔

یونینز نے کہا ہے کہ وہ پیر سے ہر روز احتجاجی مظاہرے کریں گے تاکہ حکومت پر ’ہنگامی‘ صورتحال ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔

یونین رہنما روی کمودیش نے کہا تھا کہ وہ سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کو منظم اور متحرک کریں گے کہ وہ 17 مئی کو قومی پارلیمنٹ کے آنے والے سیشن کے دوران وہاں جمع ہوجائیں۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ صدر اور ان کا خاندان اقتدار سے نکل جائے۔

دوسری جانب وزیراعظم مہیندا راجا پکسا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں زور دیا تھا کہ ‘ہمارے عوام تحمل کا مظاہرہ کریں اور یاد رکھیں کشیدگی سے حالات بدتر ہوں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘معاشی بحران میں ہمیں معاشی حل کی ضرورت ہے، جس کے لیے یہ انتظامیہ پرعزم ہے کہ حل ہوجائے گا’۔

سری لنکا کی حکومت نے جمعے کو ہنگامی صورت حال نافذ کرتے ہوئے فوج کو شہریوں کی گرفتاری کے اختیارات سونپ دیے تھے۔

وزیردفاع نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت مخالف مظاہرین کا رویہ اشتعال انگیز اور دھمکی آمیز تھا اور بنیادی خدمات کی فراہمی میں خلل ڈال رہے تھے۔

سری لنکا کے صدر راجا پکسا کو 31 مارچ کو کولمبو میں پرتشدد مظاہرین نے ان کی نجی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا تھا، اس کے بعد انہیں عوامی سطح پر نہیں دیکھا گیا تھا۔

دوسری جانب ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بھی پہلے ہی کہ چکی ہے کہ وہ راجا پکسے خاندان کے کسی رکن کی حمایت سے بننے والی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔

مزیدپڑھیں: سری لنکا: اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی

یاد رہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے بعد سری لنکا کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے کیونکہ سیاحت اور ترسیلات سے آنے والی آمدنی ختم ہونے سے اس کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔

اس سے ملک کے پاس اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے درکار غیر ملکی کرنسی کی کمی ہوگئی ہے جس سے حکومت کو بہت سی اشیا کی درآمدات پر پابندی لگانا پڑی۔

اس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی، ادویات، ایندھن کی شدید قلت اور بجلی کی طویل بندش نے جنم لیا۔ اپریل میں ملک نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے ادا کرنے سے قاصر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں