پی ٹی آئی کا وائٹ پیپر: ملک کا قرض 3 ماہ میں 6.4 کھرب ہوجائے گا، شوکت ترین

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2023
اسحٰق ڈار نے کہا کہ  2013 میں جب ہماری درآمدات 25 ارب ڈالر تھی تو بنگلہ دیش کی درآمدات 27 ارب ڈالر تھیں—فوٹو: ڈان نیوز
اسحٰق ڈار نے کہا کہ 2013 میں جب ہماری درآمدات 25 ارب ڈالر تھی تو بنگلہ دیش کی درآمدات 27 ارب ڈالر تھیں—فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیر خزانہ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر شوکت ترین نے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کس بنیاد پر کہا تھا کہ مالیاتی قرضہ 10 فیصد ہوجائے گا جبکہ نو ماہ میں مالیاتی قرضہ 2.6 کھرب ہے اور تین ماہ میں وہ 6.4 کھر ہوجائے گا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے پاکستان کی معاشی صورت حال سے متعلق وائٹ پیپر جاری کرنے کے موقع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے روپے کو اوور ویلیو کیا جبکہ دنیا کرنسی کو انڈر ویلیو کرتی ہے۔

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہمارے لیے 19.2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چھوڑ گئی تھی جبکہ اس وقت ذخائر 9.4 ارب ڈالر تھے۔

اپنی اور مسلم لیگ (ن) حکومت کا موازنہ

انہوں نے کہا کہ جب مسلم لیگ (ن) حکومت میں آئی تو درآمدات 25 ارب ڈالر تک تھیں مگر روپے کو مضبوط رکھنے کی وجہ سے درآمدات 22 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں یعنی درآمدات میں کمی واقع ہوئی۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ 2013 میں جب ہماری درآمدات 25 ارب ڈالر تھی تو بنگلہ دیش کی درآمدات 27 ارب ڈالر تھیں اور جب 2018 میں کچھ درآمدات بڑھانے کی کوشش کی گئی تو پھر بھی وہ 24.9 ارب ڈالر تک ہوئیں مگر اس وقت بنگلہ دیش کی درآمدات 37 ارب ڈالر کی ہو چکی تھی۔

’روپے کی جگہ جہاں ہے وہیں رکھنا چاہیے‘

انہوں نے کہا کہ چونکہ روپیہ مضبوط تھا تو درآمدات سستی ہونے کی وجہ سے بڑھ گئیں اور اسی طرح پانچ سال میں قوم کو 33 ارب ڈالر کا ٹیکہ لگ گیا۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ روپے کو مضبوط رکھنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے مگر اب بھی کہہ رہے ہیں کہ روپے کو مضبوط رکھنا ہے مگر روپے کو مضبوط رکھنے کے بجائے وہاں رکھیں جہاں اس کی جگہ ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا مالیاتی قرضہ 7.6 فیصد، قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 64 فیصد تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 18 کھرب سے قرض بڑھایا تھا مگر پھر ہماری جی ڈی پی بھی 72 فیصد سے بڑھ گئی تھی اور آپ (لیگی حکومت) نے جی ڈی بی 64 فیصد پرچھوڑ گئے تھے اور کورونا وائرس کے باوجود بھی ہم نے جی ڈی پی 66 فیصد تک چھوڑی تھی۔

شوکت ترین نے کہا کہ جب تحریک انصاف حکومت میں آئی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12 ارب ڈالر تھا اور پھر 12 ارب ڈالر تک قرض دینا تھا تو ہمارے سامنے 32 ارب ڈالر کا نسخہ آیا۔

’عمران خان کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے میں شرم آتی ہے‘

انہوں نے کہا کہ عمران خان کرشماتی شخصیت تو ہیں مگر وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے کیونکہ ان کو شرم آتی ہے کیونکہ جب میں ان کے ساتھ سعودی عرب گیا تو میں نے دیکھا کہ ان کو سعودی ولی عہد سے ڈیفالٹ آئل کی مدد لینے میں کتنی تکلیف ہو رہی تھی اور پھر میں نے ہی وہ بات رکھی۔

شوکت ترین نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) زیادہ تر مغربی ممالک سے منسلک ہے اور جب ہمارے ان ممالک سے اچھے تعلقات ہوتے ہیں تو آسان پروگرام ملتا ہے جب تعلقات اچھے نہیں ہوتے تو سخت پروگرام ملتا ہے۔

’امریکا کے ساتھ جنگ میں شرکت کے دوران ترقی ہوئی‘

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس دور میں ترقی کی ہے جب امریکا کے ساتھ ان کی جنگیں لڑی ہیں کیونکہ ایوب خان نے سیٹو میں شامل کرلیا اور پھر دوسری طرف 1997 میں ہم افغانستان کی جنگ میں شامل ہوگئے تو اس میں ہمارا کیا کام تھا کیونکہ یہ تو امریکا، روس، افغانستان اور سعودی کا جھگڑا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جنگ میں شامل ہونے سے 80 ہزار لوگ شہید ہوگئے اور پھر پرویز مشرف نے ہمیں جنگ میں شامل کرلیا اور تمام ادوار میں ہماری ترقی کی شرح بڑھی مگر اس کے بعد صرف عمران خان کے آخری دو برسوں میں ترقی کی شرح 5.74 تھا۔

’مارچ میں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری بات چیت چل رہی تھی‘

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ٹیکس کا حصول 37 سو ارب سے بڑھا کر 6.15 کھرب تک کیا یعنی ایک برس میں 15 سو ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا۔

شوکت ترین نے کہا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو ذخائر 9.8 ارب ڈالر تھے جو مارچ میں بڑھ کر 16.4 ارب ڈالر تک ہوگئے جو کہ آج 5.7 ارب ڈالر تک ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت الزام عائد کر رہی ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے معاہدہ معطل کرکے گئے مگر یہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ فروری میں ہم نے آئی ایم ایف سے پیسے لیے تھے اور دسمبر کے اعداد و شمار پر ساتوان جائزہ لیا جا رہا تھا اور پھر مارچ میں بھی ہماری بات چیت چل رہی تھی، لہٰذا حکومت ہم پر الزام عائد کرنا بند کرے یہ سب ان کی اپنی نالائقی کی وجہ سے ہوا ہے۔

شوکت ترین نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے کس بنیاد پر کہا تھا کہ مالیاتی قرضہ 10 فیصد ہوجائے گا جبکہ نو ماہ میں مالیاتی قرضہ 2.6 کھرب کا قرضہ ہے اور تین ماہ میں وہ 6.4 کھر ہوجائے گا۔‘

انہوں نے کہا اب نو ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب ہے اور آپ (اسحٰق ڈار) کہہ رہے ہیں کہ ایک سہ ماہی میں یہ 22 ارب پر چلا جائے گا اور مارکیٹس غیرمستحکم ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بات کے بعد روپیہ گرنا شروع ہوگیا، اسٹاک مارکیٹ میں کمی آنے لگی اور جو روپیہ ہم 178 پرچھوڑ گئے تھے وہ 250 تک جا پہنچا۔

شوکت ترین نے کہا کہ اسحٰق ڈار کی بات پر آئی ایم ایف پیچھے ہٹ گیا اور کہا کہ جب تک اعداد و شمار بتائے نہیں جاتے مزید پیسے نہیں دیئے جائیں گے، لہٰذا آئی ایم ایف نے ہماری وجہ سے پیسے نہیں بلکہ ان کی غیرذمہ دارانہ بات کی وجہ سے پیسے روکے۔

’ترقی کی شرح منفی ہوگی‘

مخلوط حکومت کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ اب ایسکچینج ریٹ گر گیا ہے، ڈالر بڑھنا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح 25 فیصد پر ہوگئی اور حساس قیمت انڈیکس کی شرح 45 فیصد تک بڑھ گئی ہے، کاروبار بند ہونا شروع ہوگیا، زراعت کا بیڑا غرق ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ میں پیش گوئی کر رہا ہوں کہ 6 فیصد ترقی کی شرح اس سال منفی ہوگئی۔’

انہوں نے کہا کہ ٹیسکٹائل صنعتوں سے 15 لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے ہیں جبکہ دیگر صنعتیں بھی بند ہو رہی ہیں۔

’ پروگرام شروع کیا جاتا ہے تو پھر اس کے سخت شرائط ہوں گی’

شوکت ترین نے کہا کہ اب حکومت کو بینکوں کو ادائیگیاں کرنی ہیں جس کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہوجائیں گے۔

سابق وزیر نے کہا کہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کا قرض چھ ماہ میں اپنے ٹارگٹ سے دوگنہ ہے۔

ٹیکس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیکس میں 15 فیصد تک اضافہ ہے جبکہ مہنگائی 25 فیصد سے زیادہ ہے جس کا مطلب ہے کہ ٹیکسز 9 فیصد منفی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام شروع کیا جاتا ہے تو پھر اس کے سخت شرائط ہوں گی جس میں روینیو مزید اکٹھا کرنا ہوگا، ایکسچینج ریٹ کو ڈھیلا چھوڑنا پڑے گا اور اگر آئی ایم ایف کی بات تسلیم نہیں کرتے پھر بھی یہی ہوگا جس کی وجہ سے مہنگائی اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں