بدترین معاشی بحران کے شکار سری لنکا نے حکومتی اخراجات میں بڑی کمی کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ٹیکس میں اضافے کے باوجود بمشکل سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن کی ادائیگی کی جاسکے گی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے صدر رانیل وکرما سنگھے نے سرکاری اخراجات میں 5 فیصد کمی کے احکامات دیتے ہوئے خبردار کیا کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے 18 لاکھ خاندانوں کو ویلفیئر کے تحت دی جانے والی ادائیگی میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

حکومتی ترجمان بندولا گوناوردانا نے بتایا کہ صدر نے گزشتہ روز کابینہ کو بتایا تھا کہ ہماری توقع کے برعکس رواں برس معاشی بحران میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

بندولا گوناوردانا کا کہنا تھا کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ رواں برس معیشت مزید سکڑ جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ہدف کے مطابق ٹیکس جمع نہیں کر سکیں گے کیونکہ اس سال بھی معیشت سکڑے گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سری لنکا کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے 2 ارب 90 کروڑ ڈالر کا قرض حاصل کرنے کے لیے پیشگی شرط کے طور پر قرض کو بروقت ادا کرنے کے حوالے سے پائیداری حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف نے کولمبو سے ٹیکسز میں تیزی سے اضافہ کرنے اور خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کو فروخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق قرض دینے والے اہم ممالک چین اور بھارت بھی اب تک اثاثوں کی قدر میں کمی پر متفق نہیں ہوسکے ہیں، جس کی وجہ سے سری لنکا کو قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کی کوششوں کا فائدہ نہیں ہو رہا۔

رپورٹ کے مطابق نئے سال کے موقع پر سری لنکا نے انفرادی آمدنی اور کارپوریٹ ٹیکسز کو دگنا کر دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر 65 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے، قبل ازیں گزشتہ برس اگست میں قیمتیں 75 فیصد بڑھا دی گئی تھیں۔

واضح رہے کہ 2021 کے آخر سے خوراک، توانائی اور بجلی کی شدید قلت مہینوں جاری رہنے کی وجہ سے عوام میں حکومت کے خلاف غصہ تھا، جس نے 46 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کے سبب ملک کو دیوالیہ قرار دے دیا تھا۔

جولائی میں بحران کے عروج پر پہنچنے کے دوران صدر رانیل وکرما سنگھے نے اقتدار سنبھالا تھا، ان کے پیش رو ملک میں جاری مظاہروں اور اپنی رہائش گاہ پر عوام کی جانب سے دھاوا بولنے کے بعد ملک سے فرار ہو گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں