سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز نے سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو(نیب) قانون میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال کی جانب سے دیے گئے ریمارکس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے یہ کیسے کہہ دیا کہ پارلیمنٹ متنازع ہوگئی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز ایک ایسے مقدمے میں ریمارکس دیے جس کا الیکشن سے براہ راست تعلق نہیں تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’چیف جسٹس نے فرمایا پارلیمنٹ نامکمل ہے، پارلیمنٹ کو جان بوجھ کر مکمل نہیں کیا جا رہا ہے، پارلیمنٹ کے قوانین متنازع ہیں، اس لیے کہ وہ مکمل نہیں ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے کہا ہماری تاریخ کا واحد دیانت دار وزیراعظم، انہوں نے نام نہیں لیا لیکن ان کا اشارہ محمد خان جونیجو کی طرف تھا‘۔

چیف جسٹس کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ ’پتا نہیں انہیں یہ استحاق کس نے دیا کہ لیاقت علی خان سے عمران خان تک تمام کو یک جنبش قلم بددیانت قرار دے کر صرف ایک کے بارے میں فتویٰ دیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ تکلیف دہ ریمارکس ہیں، ہم عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور جو ممالک اور قومیں عدالتوں کا احترام نہیں کرتیں، وہ ناانصافی اور انتشار کا بھی شکار ہوتی ہیں اور ان کا تانا بانا بکھر جاتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے عدلیہ کا اس وقت بھی احترام کیا، جب بھٹو کو پھانسی دی گئی، ہم نے عدلیہ کا اس وقت بھی احترام کیا، جب ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ 4 مارشل لاؤں کی توثیق کی گئی‘۔

عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے عدلیہ کا اس وقت بھی احترام کیا جب ایک جرنیل کو باوردی انتخابات لڑنے کی اجازت دی گئی، ہم نے عدلیہ کا اس وقت بھی احترام کیا جب ایک وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر آپ نے عمر بھر کے لیے گھر بھیج دیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ہر فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے، عدلیہ انتخابات کے بارے میں جو بات کہے گی ہم مانیں گی، ہم آئین کو مانتے ہیں اور 90 روز میں انتخابات کی شبلی فراز کی تجویز میں تائید کرتا ہوں‘۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے کہا کہ ’میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہے، عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ ایک ستون ہے اور آج کل صحافت کو چوتھا ستون کہتےہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں جس طرح سڑکوں اور چوراہوں، گلیوں اور بازاروں مین تجاوزات ہو رہے ہیں اسی طرح یہاں بھی تجاوزات ہو رہے ہیں اور ہر تجاوز کا رخ پارلیمنٹ کی طرف ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کوئی طاقت اور بندوق کے زور پر پارلیمنٹ کو دبوچ لیتا ہے، اس کو قتل اور ختم کردیتا ہے اور اس کے قائد ایوان کو گھر بھیج دیتا ہے‘۔

حکومتی سینیٹر نے کہا کہ ’عدالت عظمیٰ اور عدلیہ کا ایک دائرہ کار ہے، ججوں کی بحالی کے لیے عدلیہ کی تحریک کے بعد ایکٹیویزم کا ایک ایسا انداز شروع ہوگیا ہے کہ تجاوزات ہمارے ہاں بھی آگئی ہیں، ہماری آئینی ترامیم بھی چیلنج ہوجاتی ہیں، ہمارے بنائے ہوئے قانون بھی چیلنج ہوجاتے ہیں اور آج کل بھی نیب کا قانون زیر بحث ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جب جج صاحبان غور و فکر کرتے ہیں تو انہیں یہ تو سوچنا چاہیے کہ اس پر پارلیمنٹ کے کوئی 400 یا 500 ارکان بھی غور فکر کرچکے ہیں اور اس کے بعد یہ آیا ہے‘۔

سپریم کورٹ میں نیب قانون میں ترمیم کے خلاف پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران دیے گئے چیف جسٹس کے ریمارکس پر بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم ان کے اختیارات میں کوئی مداخلت نہیں چاہتے ہیں، ہم ان کے فیصلوں کے سامنے سر جھکائیں گے، وہ فیصلہ چاہے ہمیں کتنا ہی برا لگے، کتنا ہی ناگوار لگے اور کتنا ہی ناروا ہو لیکن خدا کے لیے آئے روز چابک لے کر اس پارلیمنٹ کی پشت پر نہ ماریں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ریمارکس کیا ہیں کہ ہماری تاریخ میں ایک وزیراعظم دیانت دار تھا، اگر اس طرح کے ریمارکس ہم ججوں کے بارے میں دیں اور کہیں ہماری پوری تاریخ میں ایک ہی چیف جسٹس دیانت دار تھا تو کیا وہ قابل قبول ہوگا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے یہ کیسے کہہ دیا کہ پارلیمنٹ متنازع ہوگئی ہے، کیوں متنازع ہوگئی ہے، پارلیمنٹ اکثریت کا نام ہے، قومی اسمبلی میں آج بھی اکثریت بیٹھی ہوئی ہے اور اکثریت قانون بناتی ہے، سینیٹ اکثریت سے قانون بناتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسی باتیں جو ہماری توقیر پر حملہ ہے، ہماری تکریم پر حملہ ہے، ہماری پارلیمنٹ کی خود مختاری پر حملہ ہے، پارلیمنٹ کے وقار پر حملہ ہے، پارلیمنٹ کی عزت پر حملہ ہے، پارلیمنٹ کے نام پر حملہ ہے تو ایسی چیزیں نہ کریں، ہم ادب، احترام اور بڑی عاجزی کے ساتھ کہ نہ وہ عوام کے نمائندے ہیں اور نہ افواج پاکستان عوام کی نمائندہ بلکہ یہ ایوان عوام کا نمائندہ ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عوام کے نمائندے سے اس طرح تضحیک کے ساتھ برتاؤ نہ کریں، عوام کے نمائندے کو اپنا کام کرنے دیں، وہ قانون بناتے ہیں، قانون میں آپ کو سقم نظر آتا ہے اور آپ اس کو آئین کے منافی خیال کرتے ہیں تو آپ پہلے بھی قانون ختم کرچکے ہیں آئندہ ختم کرلیجیے ہم آپ کو نہیں روک سکتے ہیں‘۔

’کیا مارشل لا کے ادوار میں اس طرح کے ریمارکس دیے جاتے ہیں‘

انہوں نے کہا کہ ’آج تک کسی عدالتی فیصلے پر کیا کسی وزیراعظم یا کسی صدر یا کسی پارلیمان نے رکاوٹ ڈالی ہے، ہم رکاوٹ نہیں ڈالتے لیکن کیا آپ نے سوچا کہ آپ مارشل لاؤں کی توثیق کیسے کر دیتے ہیں، کیا مار شل لاؤں کے دور میں آپ اس طرح کے ریمارکس دیتے ہیں‘۔

عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ’کیا مارشل لا ادوار میں آپ کہتے ہیں یہ جو ایڈمنسٹریٹر بیٹھا ہوا ہے چیف ایگزیکٹیو بن کر، اس کو آپ کہتے ہیں، وردی سمیت تم الیکشن لڑ سکتے ہو‘۔

انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم قتل ہوجاتا ہے اور بعد میں کہتے ہیں یہ ہم سے غلطی ہوگئی، ہم پر دباؤ تھا، یہ تاریخ ہے، تاریخ کو اپنے سامنے رکھیں، ہم آپ کا بہت احترام کرتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ آپ کا احترام کریں گے معاشرہ قائم رہے گا، ہم جانتے ہیں کہ آپ کا احترام کریں گے تو قانون و انصاف کی فراوانی ہوگی، اس ایوان کا بھی احترام ہوگا اور عوام کے حقوق کی نگہبانی ہوگی‘۔

سپریم کورٹ کے ریمارکس پر انہوں نے کہا کہ ’آپ بھی جان جائیے یہ ہاؤس بھی ایک نام، مقام اور وقار رکھتا ہے اور اس ایوان کے بارے میں آپ کے پاس مقدمہ ہی نہیں ہے اور آپ ایک غیرمتعلقہ کسی پر اس طرح کے ریمارکس دے دیتے ہیں‘۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’ہر ایوان کی عزت اور احترام ہوتا ہے اور اس احترام کے سوتے پھوٹتے ہیں، ہم نے اگر کوئی ایسی حرکت کریں گے جو آئین اور قانون کی منافی ہوگی تو ہم اپنی بے توقیری کریں گے‘۔

’عدالتیں اپنے دائرہ کار سے نکل سیاسی بیانات دیں تو پھر بھی ہم توہین نہیں کریں گے‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر عدالتیں اپنے دائرہ کارہ سے نکل کر سیاسی اور غیرمتعقلہ بیانات دیں گی تو پھر ہم توہین نہیں کر رہے ہوں گے، وہ خود دیکھ لیں وہ کیا کر رہے ہیں‘۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے ہم عدالتوں پر کوئی دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں یا اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں، عدالتیں اپنا کام کریں، اگر ہم کہیں غلط ہیں تو ہماری رہنمائی کریں لیکن اٹھتے بیٹھے یہ باتیں نہ کریں کہ ہاؤس نامکمل ہے، قانون سازی متنازع ہوگئی ہے اور ایک ہی وزیراعظم دیانت دار تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس جب آپ کے سامنے آئے گا کہ اتنے وزرائے اعظم میں سے کون دیانت دار تھا تو پھر کمیٹی بناکر فیصلہ کر لیجیے گا۔

اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ(ن) کی سینیٹر سعدیہ عباسی نے چیئرمین سینیٹ سے کہا کہ دو تین دن سے سپریم کورٹ سے ریمارکس آئے ہیں، وہ وضاحت کریں ان کا مؤقف کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پارلیمنٹ اور جمہوریت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں نیب قوانین میں ترمیم کے خلاف پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیا ہے، موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہو رہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ عدالت اس سے پہلے بھی ایک بار اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کر چکی ہے، پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی وزیر اعظم آئے تھے جو بہت دیانت دار سمجھے جاتے تھے، ایک دیانت دار وزیراعظم کی حکومت 58 (ٹو) (بی) کے تحت ختم کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 58 (ٹو) (بی) کالا قانون تھا، عدالت نے 1993 میں قرار دیا تھا کہ حکومت غلط طریقے سے گئی لیکن اب انتخابات ہی کرائے جائیں۔

پارلیمنٹ واقعی نامکمل ہے، قائد حزب اختلاف

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے عرفان صدیقی کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ واقعی نامکمل ہے، ایک بڑی جماعت کو جس طریقے سے پارلیمٹ سے باہر کیا گیا اور سندھ ہاؤس میں بولیاں لگائی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) کی اسمبلیاں تحلیل ہوگئی ہیں اور قانون کہتا ہےکہ اس صورت حال میں 90 روز میں الیکشن کروائے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر نگران سیٹ اپ قائم کردیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے 90 روز میں الیکشن نہیں ہو سکتا، اگر الیکشن نہ ہوئے تو یقین مانے آئین کی کتاب بند ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئین کی کتاب بند ہوئی تو کشیدگی کا راستہ کھل جاتا ہے، کیا ملک کسی عدم استحکام کا متحمل ہوسکتا ہے، آج کوئی اشارہ کرے تو اس کو تنقید کے ذمرے میں لیں اس کو توہین کے ذمرے میں نہ لیں۔

شہزاد وسیم نے کہا کہ دو الفاظ کے چرچے ہیں، ایک توہین اور ایک عزت، اب نتقید کو توہن کہہ دیا گیا ہے، عزت کرانا آپ کے ہاتھ میں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں