بھارت کی سپریم کورٹ نے نریندر مودی پر دستاویزی فلم بنانے کے بعد قوم پرست تنظیم ہندو سینا پتی کی طرف سے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) پر ملک میں پابندی عائد کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

بھارتی نشریاتی ادارے ’دی ہندو‘ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) پر ملک میں پابندی اور اس کی ’بھارت مخالف‘ دستاویزی فلموں اور رپورٹنگ کی تفتیش کے لیے ہندو سینا پتی کے صدر کی درخواست مسترد کر دی۔

رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس سنجیو خنا اور ایم ایم سندریش پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ہندو سینا پتی کے صدر وشنو گپتا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اسے ’بالکل غلط فہمی‘ اور میرٹ کے برعکس قرار دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کی وکیل پنکی انانند نے عدالت کو دلائل دیے کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم ’’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ کا مقصد ایک ایسے وقت میں بھارت مخالف مہم چلانا ہے جب ملک معاشی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق درخواست میں کہا گیا تھا کہ بھارت آج اس مقام پر ہے کہ برطانوی وزیراعظم بھی ایک بھارتی شخص ہے۔

سپریم کورٹ کے ججز نے درخواست گزار کے وکیل سے سوال کیا کہ ’یہ کیا ہے، کیا آپ چاہتی ہیں کہ ہم مکمل سینسرشپ عائد کریں۔‘

درخواست گزار نے استدعا کی کہ بی بی سی فلم کا مقصد خفیہ انداز سے بھارت کا امن اور سلامتی خراب کرنا ہے، جبکہ ملک نے 2014 سے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ترقی کا سفر کیا ہے۔

درخواست گزار نے کہا ہے کہ بی بی سی کو بھارت مخالف لابی قرار دیا جائے کیونکہ اس ملک کی قومی ترقی ہضم نہیں ہوتی اور تعصبی ہے۔

رپورٹ کے مطابق درخواست گزار نے کہا ہے کہ 27 جنوری کو وزارت داخلہ کو دی گئی ریپریزینٹیشن کا بھی ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

گزشتہ ماہ بی بی سی کی دستاویزی فلم کو مبینہ طور پر ایسے پروپیگنڈے کا حصہ قرار دیتے ہوئے جس کا مقصد بے بنیاد بیانیے کو آگے بڑھانا ہے، بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ دستاویزی فلم میں تعصب، حقائق کی کمی اور نوآبادیاتی ذہنیت واضح طور پر نظر آتی ہے۔

ایک نیوز کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اس عمل کے مقصد اور اس کے پیچھے ایجنڈے کے بارے میں حیرت ہے، ہم اس طرح کی کوششوں کو باوقار بنانا نہیں چاہتے۔

اس کے فوری بعد ہی بھارتی پولیس نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بی بی سی کی دستاویزی فلم کی اسکریننگ بند کروا کر طلبا کو گرفتار کرلیا تھا۔

ملک بھر کی جامعات کی طرح دہلی یونیورسٹی کے طلبا نے بھی دستاویزی فلم کے لیے اسکریننگ آویزاں کی اور حکومت کی طرف سے سوشل میڈیا پر اس کی اشاعت بلاک کرکے فلم کو مزید پھیلنے سے روکنے کی کوششوں کو چلینج کیا تھا۔

نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے طلبا کی طرف سے جامعہ میں فلم کی نشریات پر اعتراضات اٹھانے کے بعد پولیس نے جامعہ کا گھیرا کیا اور طلبا سے لیپ ٹاپ ضبط کرتے ہوئے چار سے زائد لوگوں کے اجتماع پر پابندی عائد کردی تھی۔

واضح رہے کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم نریندر مودی کے گرد گھومتی ہے جو اس وقت گجرات ریاست کے وزیراعلیٰ تھے۔

گجرات کے ان فسادات کے دوران ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے جب کہ مارے جانے والے زیادہ افراد مسلمان تھے، یہ فسادات اس وقت پھوٹ پڑے تھے جب ہندو زائرین کو لے جانے والی ٹرین میں آگ لگنے سے 59 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

دو قسطوں پر مبنی ’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ نامی دستاویزی فلم کا پہلا حصہ 17 جنوری کو بی بی سی پر نشر کیا گیا تھا جبکہ دوسری قسط 24 جنوری کو نشر کیا گیا تھا۔

فلم کی پہلی قسط میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے عروج، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ساتھ تعلقات اور 2002 کے گجرات فسادات کے دوران ان کے کردار پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

دستاویزی فلم کے مطابق ’مغرب، نریندر مودی کو ایشیا میں چینی تسلط کے خلاف دفاع کے طور پر دیکھتا ہے، انہیں امریکا اور برطانیہ دونوں اہم اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں تاہم نریندر مودی کی حکومت پر الزامات لگتے رہے ہیں اور اس کی وجہ بھارت کی مسلم آبادی سے متعلق اس کا رویہ ہے۔‘

دستاویزی فلم میں ان الزامات کی حقیقت پر تحقیقات کی گئی ہے۔

دستاویزی فلم میں نریندر مودی کی جانب سے برطانوی صحافی کو دیا گیا غیر معمولی انٹرویو بھی شامل ہے، اس صحافی نے بعد میں نریندر مودی کو طاقتور، خطرناک قرار دیا تھا۔

صحافی کی جانب سے بھارت کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت سے متعلق سوال پر نریندر مودی نے عدم دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے اسی جھوٹا پروپیگنڈا قرار دیا تھا۔

اگرچہ دستاویزی فلم کا بڑا حصہ محفوظ شدہ (آرکائیو) فوٹیج اور مودی کی اپنی ویڈیو پر مبنی ہے، لیکن اس میں گجرات فسادات کی خفیہ برطانوی تحقیقات کے بارے میں چونکا دینے والا انکشاف بھی شامل ہیں۔

برطانوی دفتر خارجہ کی جانب سے ’بی بی سی‘ کو حاصل ہونے والی غیر شائع شدہ رپورٹ میں 2002 کے گجرات فسادات میں مودی کے کردار کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے تھے، رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 2002 میں گجرات میں پُرتشدد ماحول پیدا کیا گیا اور مودی اس کے ’براہ راست قصوروار‘ تھے۔

دستاویزی فلم میں برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹرا نے تحقیقات کے نتائج کے حوالے سے بات کی، انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس حوالے سے میں بہت پریشان تھا، میں اس میں بہت زیادہ ذاتی دلچسپی لے رہا تھا کیونکہ بھارت ہمارے لیے بہت اہم ملک ہے جس کے ہمارے ساتھ تعلقات ہیں، ہمیں بہت محتاط طریقے سے تحقیقات کرنی تھیں‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں