رئیل اسٹیٹ سیکٹر غیر ٹیکس شدہ پیسے کی ’پارکنگ لاٹ‘ ہے، سابق سربراہ ایف بی آر

13 مارچ 2023
شبر زیدی نے کہا کہ ڈی ایچ اے اور فوج کے تعاون سے ہم نے ٹیکس سے بچنے کے لیے نظام تیار کیا ہے— فوٹو بشکریہ یوٹیوب/اسکرین شاٹ
شبر زیدی نے کہا کہ ڈی ایچ اے اور فوج کے تعاون سے ہم نے ٹیکس سے بچنے کے لیے نظام تیار کیا ہے— فوٹو بشکریہ یوٹیوب/اسکرین شاٹ

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے بھاری ٹیکس دینے کا دعویٰ کرنے والے کاروباروں کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں جمع ہونے والے مجموعی ٹیکس کا 70 فیصد صرف 300 کمپنیوں نے ادا کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ کون کتنا ٹیکس دیتا ہے، لاہور کے تمام بازاروں کا ٹیکس صرف کراچی کے لیاقت آباد بازار سے بھی کم ہے۔

شبر زیدی اپنے ساتھی پینلسٹ بزنس مین کے دعووں کا جواب دے رہے تھے جنہوں نے بھارتی ٹیکس ادا کرنے کے دعوے کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں بہت زیادہ ٹیکس ہیں اور کوئی ڈیویڈنڈ نہیں ہے۔

یہ گفتگو اتوار کے روز الحمرا آرٹ سینٹر میں پی آئی ڈی ای کے زیر اہتمام منعقدہ ایکون فیسٹ کے اختتامی روز لمز کے پروفیسر شیر آغا اسد کی زیر نگرانی ’ٹیکسیشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘ کے موضوع پر ایک سیشن میں جاری تھی۔

شبر زیدی نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ غیر ٹیکس شدہ رقم کی ’پارکنگ لاٹ‘ ہے، ڈی ایچ اے اور فوج کے تعاون سے ہم نے سرکاری طور پر ٹیکس سے بچنے کے لیے ایک نظام تیار کیا ہے، رئیل اسٹیٹ کو ملک میں مستقل ایمنسٹی دے دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بطور چیئرمین ایف بی آر انہوں نے رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کیے تھے اور پلاٹوں کی ’فائلوں‘ کا کاروبار رک گیا تھا، مجھے چیف آف آرمی اسٹاف نے بلایا اور میرے اقدامات کے خلاف شکایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ (ڈی ایچ اے) ) ’ان کے لوگوں‘ کا کاروبار ہے، شبر زیدی نے کہا کہ ڈی ایچ اے پر کوئی چیک نہیں ہے اور آپ یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ وہاں پلاٹوں کے مالک کون ہیں۔

شبر زیدی نے کہا کہ جب پلاٹ پارکنگ لاٹ بن جاتے ہیں تو وہ معاشرے کے غریب طبقوں کی پہنچ سے باہر ہو جاتے ہیں، انہوں نے تجویز پیش کی کہ اگر زمین کے پلاٹ پر تعمیرات نہیں کی جاتیں تو اسے ضبط کر لیا جائے جب کہ جی او آرز اور گورنر ہاؤس کو ختم کر دیا جائے۔

کالم نگار اور وکیل اکرام الحق نے کہا کہ بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اورعدلیہ نے ملک کی معیشت کو تباہ کر دیا، یہاں بہت زیادہ ایمنسٹی اسکیمز دی جاتی ہیں، ملک میں کئی ڈی ایچ اے ہیں جہاں پراپرٹی کا کاروبار ہوتا ہے، ملک کا شاید ہی کوئی شہر ہو جہاں ڈی ایچ اے نہ ہو کیونکہ ڈی ایچ اے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے کوئی سوال تک بھی نہیں پوچھا جاتا، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اثاثوں کو ظاہر کرنے کے لیے بار بر ایمنسٹی اسکیمز دی جاتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں