رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

دنیا کب ختم ہوگی ہمارے پاس اب اس کی تاریخ موجود ہے اور وہ تاریخ صرف 10 سال دور ہے۔ رواں ہفتے اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ کس طرح دنیا موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنے اہداف کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوجائے گی۔ یوں 2030ء کے اوائل تک موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات اتنی شدید ہوجائیں گی کہ انسانیت کے لیے ان سے نمٹنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔

بنیادی طور پر ہمیں ایک ایسے مستقبل کا سامنا ہے جہاں دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے کروڑوں افراد ایسی خطرناک موسمی آفات کا سامنا کریں گے جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی۔ رپورٹ کے مطابق عالمی موسمیاتی بجٹ کے تحت اندازہ لگایا جاتا ہے کہ درجہ حرارت میں کس حد تک اضافہ انسانی زندگی کے لیے خطرہ نہیں ہوگا۔ امکان یہی ہے کہ یہ بجٹ بھی تمام حدود پار کرلے گا۔ اس کے بعد دنیا جن خطرات اور آفات کا سامنا کرے گی وہ تقریباً دنیا کا اختتام ہی لگتا ہے۔

دنیا کا مستقبل 2 ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ہاتھ میں ہے۔ بھارت 2060ء جبکہ چین 2070ء تک اپنے موسمیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے شاید ان کی رفتار نہایت کم ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ اس وقت جو اقدامات کیے جارہے ہیں ان سے دنیا آنے والے خطرات سے خود کو نہیں بچا پائے گی۔ اس وقت جن تبدیلیوں کی ضرورت ہے وہ دور رس اور سخت ہیں جبکہ اگر ہم یہ تبدیلیاں نہیں لا پائے تو جو نتائج ہمارے سامنے آئیں گے وہ بھی سخت اور دور رس ہوں گے۔

یہ رپورٹ تشکیل دینے کے لیے ماہرینِ موسمیات نے اعدادوشمار پر غور کیا تاکہ موجودہ موسمیاتی تبدیلی کا صنعتی ترقی سے پہلے کے دور سے موازنہ کیا جاسکے۔ اس پر غوروفکر کے بعد جو اہم نقطہ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ انسان کرہِ عرض پر مہلک اثرات مرتب کررہے ہیں اور ماحولیاتی نظام کی بگڑتی صورتحال اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات کا ہماری زمین اور اس میں بسنے والے لوگ مقابلہ نہیں کرپائیں گے۔ ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کے نتائج ہزاروں برسوں تک ہمارے سامنے آتے رہیں گے۔

اقوامِ متحدہ کی اپنی اس رپورٹ میں ’امید‘ کی کرن بھی ہے، جس میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ لیکن جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے یہ صورتحال پُرامید نہیں ہیں۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ جن 2 ممالک سے ماہرین تبدیلی کا عمل تیز کرنے اور کاربن کی کھپت کو نمایاں حد تک کم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں وہ ممالک بھارت اور چین ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ممالک بخوبی واقف ہیں کہ یہ دونوں ممالک طویل عرصے سے معاشی میدان میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں وہ دلچسپی نہیں دکھائی جو گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تباہی کو روکنے کے لیے درکار ہے۔

ان کی سوچ یہ ہے کہ چونکہ مغرب، صنعتی ترقی اور معاشی خوشحالی کے حصول کی دوڑ میں شامل ہے اس لیے انہیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ کاربن کی کھپت کے باعث دنیا کے تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی فکر کیے بغیر اس دوڑ کا حصہ بنیں۔ پاکستان چونکہ بھارت کے شہر نئی دہلی کے قریب واقع ہے اس وجہ سے ہم نے دیکھا کہ وہاں پیدا ہونے والی اسموگ اور آلودگی پاکستان کے سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کو روزانہ کی بنیاد پرمتاثر کرتی ہے۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان خود آلودگی پیدا نہیں کرتا لیکن گزشتہ برس پاکستان میں آنے والے سیلاب کے بعد جمع کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر پاکستان پر یہ آفت دوسرے ممالک کے غلط اقدامات کی وجہ سے مسلط ہوئی۔ اس میں پاکستان کے ہمسایوں سمیت دنیا میں خطرناک حد تک آلودگی پیدا کرنے والے ممالک شامل ہیں جو اقتصادی ترقی کی دوڑ میں کرہِ ارض کے مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا (بشمول چین اور بھارت) کو 2035ء تک کاربن کے اخراج میں کم سے کم 60 فیصد کمی کرنا ہوگی تاکہ زمین کو بچایا جاسکے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ نوعِ انسانی کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کے اس تباہ کُن تنازع کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ’تمام شعبہ جات اور موجودہ نظام میں تیز اور دور رس تبدیلی لےکر آئی جائے‘۔

قابلِ تجدید توانائی کے استعمال کو بڑھانا بھی موسمیاتی اہداف کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے قابلِ تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کریں تاکہ تباہی کی جانب جاتی اس دنیا کا رخ تبدیل کیا جاسکے۔

کوپ 27 میں بھارت نے اخراج کو کم کرنے کے لیے اپنا طویل مدتی منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے میں نہ صرف معلومات اور اعدادوشمار فراہم کیے گئے ہیں بلکہ اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ بھارت ایندھن کے طور پر کوئلے (جس سے کاربن کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے) کا استعمال ممکنہ طور پر جاری رکھے گا اور مستقبل میں اس سے استعمال کے لیے ایندھن بھی پیدا کرے گا۔

اقوامِ متحدہ کی موسمیاتی ایکشن کمیٹی نے بھارت کی کوششوں کو ’ناقص‘ قرار دیا ہے۔ اخراج کو کم کرنے کے لیے بھارت کے اقدامات ناکافی ہیں اور اس سے موسمیاتی تباہی کو روکنا ناممکن ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ 1901ء سے ملک کے اوسط درجہ حرارت میں صفر عشاریہ 7 ڈگری (تقریباً ایک ڈگری) سیلسیس تک اضافہ ہوا ہے، بھارت اپنی روش پر قائم ہے۔ بھارت اور پاکستان میں گزشتہ برس آنے والی ہیٹ ویو میں سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ اس سال درجہ حرارت میں مزید اضافہ متوقع ہے اور میدانی علاقوں میں گرمی بڑھ جانے کے باعث رہائشیوں اور مویشیوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں گے۔

پاکستان کاربن کا کم اخراج کرنے والا ملک ہے لیکن اس کے باوجود یہ دیگر ممالک کی پیداکردہ آلودگی کے نقصانات کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ چین اور بھارت جیسے آلودگی پیدا کرنے والے ممالک کو درست اقدامات کرنے کی تلقین میں اپنا کردار ادا کرے۔ وہ دنیا جہاں آبادی کا بڑا حصہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجائے، ایسی دنیا میں تیزی سے ترقی کرتی ان اقتصادی قوتوں کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟

اگرچہ اقوامِ متحدہ نے مطلع کیا ہے کہ اس رپورٹ سے گھبرانا نہیں ہے، لیکن اس وقت گھبرانے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ سب کے سامنے ہے کہ دنیا میں انتہائی حد تک آلودگی پیدا کرنے والے ممالک کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے بہت قلیل مدتی اقدامات لے رہے ہیں، ایسے موقع پر اقوامِ متحدہ کو تحقیقاتی رپورٹس منظرِعام پر لانے کے بجائے ایسے سخت اقدامات لینے چاہئیں جن کے تحت ممالک آلودگی کو کم کرنے کے ہر صورت پابند ہوں۔ آخرکار ان ممالک کی وجہ سے پوری دنیا کا مستقبل اس وقت داؤ پر لگا ہے۔


یہ مضمون 22 مارچ کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں