وہ 11 مارچ 1985ء میں سعودی عرب میں پیدا ہوئی جہاں اس کے والد روزگار کے سلسلے میں مقیم تھے۔ 11 سال کی عمر تک وہیں رہنے کے بعد وہ پاکستان آگئی۔ 15 سال کی عمر میں جب وہ ہائی اسکول میں تھی تب اس نے اپنا پہلا گٹار خریدا اور شوقیہ بجانے لگی۔ وہ گھر میں اور مہمانوں کے سامنے گانے لگی تو سب نے کہا یہ تو بہت اچھا گاتی ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل کرے مگر اس کے والدین کا خیال تھا کہ اس سے اس کے تعلیمی معاملات متاثر ہوں گے۔

اس نے اپنے شوق کی تسکین جاری رکھی اور کچھ عرصے بعد چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا بینڈ بھی بنایا جو گھر پر ہی گانے بجاتا تھا۔ زندگی نے ایک نیا موڑ لیا جب وہ کوَر سونگز (دوسروں کے گائے ہوئے گانے نئے انداز میں گانا) گانے لگی اور جلد ہی اسے ایک بڑا بریک ملا جب اس نے عامر ذکی مرحوم کا مشہورِ زمانہ گیت ’میرا پیار‘ گایا جس سے اسے بہت پذیرائی ملی۔

2005ء میں محض 20 برس کی عمر میں اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کیا اور موسیقی کی تعلیم کے لیے امریکا جانے کا ارادہ کیا جہاں اس نے بوسٹن کے برکلے کالج آف میوزک سے میوزک پروڈکشن اور انجینئرنگ میں ڈگری مکمل کی۔ 2010ء میں وہ نیویارک منتقل ہوگئی جہاں وہ میوزک ایڈیٹنگ کے ساتھ ساتھ اپنی موسیقی پر بھی کام کرتی رہی۔ اسی دوران ایک میوزیکل پرفارمنس کے موقع پر اسے خبر ہوئی کہ عابدہ پروین بھی وہاں موجود ہیں جن کی وہ بہت بڑی مداح تھی تو وہ ان سے ملنے ان کے ہوٹل کے دروازے پر جا پہنچی۔ عابدہ پروین اس سے بہت اچھے طریقے سے ملیں۔ اس نے عابدہ پروین سے پوچھا کہ مجھے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میری موسیقی سنو۔

اس نے ایسا ہی کیا اور اس کا پہلا البم ’برڈ انڈر واٹر‘ 2014ء میں منظر عام پر آیا جس میں اس نے صوفیانہ طرز کو اپنے جدت بھرے انداز میں یوں گایا کہ جو لوگ اردو نہیں سمجھتے تھے وہ بھی عش عش کر اٹھے۔

پھر اس کا دوسرا البم ’سائرن آئی لینڈز‘ 2018ء میں ریلیز ہوا اور جب وہ اپنے تیسرے البم پر کام کررہی تھی تب اس کی قریبی دوست عینی علی خان اور چھوٹا بھائی مہر آفتاب اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ ان سانحات نے اسے توڑ کر رکھ دیا اس نے میوزک میں پناہ لی۔ اس کا تیسرا البم ’ولچر پرنس‘ 2021ء میں ریلیز ہوا جس میں اس کی ایک عشرے کی محنت شامل تھی۔

اس نے البم ولچر پرنس کو اپنے مرحوم بھائی کے نام کردیا۔ یہ میوزک البم 2021ء میں ریلیز ہوا جسے ہالینڈ کے اخبار نے سال کا بہترین میوزک البم قرار دیا۔

2022ء میں اسے اپنے شہرہ آفاق گانے ’محبت‘ کی وجہ سے بہترین گلوبل میوزک پرفارمنس کیٹیگری میں گریمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ پہلی پاکستانی گلوکارہ ہیں جنہیں اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ’محبت‘ گانا سابق امریکی صدر کی 2021ء کی پسندیدہ گانوں کی لسٹ میں بھی شامل تھا۔

گریمی ایوارڈ یافتہ پاکستانی گلوکارہ عروج آفتاب
گریمی ایوارڈ یافتہ پاکستانی گلوکارہ عروج آفتاب

2023ء میں اس کے گانے ’ادھیڑو نا‘ پر دوسری بار گریمی ایوارڈ کے لیے نامزدگی بھی حاصل کی۔ اگرچہ اس بار وہ ایوارڈ جیت تو نہ پائیں مگر انہوں نے اپنے آبائی ملک پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔ دنیا انہیں عروج آفتاب کے نام سے جانتی ہے۔ انہیں اعلیٰ حکومتی ایوارڈ ’پرائڈ آف پرفارمنس‘ سے بھی نوازا گیا ہے۔

پاکستان کے اکثر عالی دماغ سی ایس ایس کرکے بیوروکریسی کی بھٹی کا ایندھن ہوجاتے ہیں یا پھر پردیس سدھار جاتے ہیں جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر تیزی سے ترقی کے زینے چڑھ جاتے ہیں کیونکہ یہاں ان کو نہ تو ویسے مواقع میسر ہوتے ہیں اور نہ ہی سازگار ماحول۔

تخلیقی ذہن کے حامل افراد ویسے بھی لگی لپٹی راہوں پر رینگنے سے گریزاں رہتے ہیں ایسے میں جب فضا گھٹن کا شکار ہو تو وہ گھبرا کر رسی تڑوا کر بھاگنے والے بیل کی طرح جہاں سینگ سمائے جا گھستے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ چین ہو یا جاپان، جرمنی، برطانیہ یا فرانس جب بھی ان قوموں پر کڑا وقت آیا تو ان کے باصلاحیت افراد نے ہی انہیں سنبھالا ہے۔ جنگوں کے بعد جب ان کی کوئی عمارت بچی نہ پل تو کس نے آگے بڑھ کر صفر سے کام شروع کیا اور انہیں ترقی کی معراج پر جا پہنچایا؟

جب کوئی ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو اور اس پر ’ڈیفالٹ‘ کے کالے بادل منڈلا رہے ہوں تو ایسے میں اس دیس کے باسی ہی اسے بچا سکتے ہیں مگر مایوسی کا ایسا گہرا کہرا چھایا ہے کہ 8 لاکھ افراد 2022ء میں پاکستان چھوڑ گئے ہیں۔ گیلپ سروے کے مطابق 30 سال سے کم عمر والا ہر تیسرا شخص اس ملک سے جانا چاہتا ہے اور یونیورسٹی میں پڑھنے والا ہر دوسرا شخص پردیس جانے کا خواہاں ہے۔

اچھے ڈاکٹرز، انجینئیرز ، اکاؤنٹنٹ، نرسز اور تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہنرمند افراد باہر چلے جائیں گے تو اس ملک کا کیا بنے گا؟ ہر انسان گھٹن بھرے ماحول سے نکل کر بھاگنا چاہتا ہے۔

30 سال سے کم عمر والا ہر تیسرا شخص اس ملک سے جانا چاہتا ہے
30 سال سے کم عمر والا ہر تیسرا شخص اس ملک سے جانا چاہتا ہے

عظیم لکھاری دوستوفسکی ایک جگہ کہتا ہے کہ مجھے تنگ اور گھٹے گھٹے سے کمروں والے مکان پسند نہیں ان سے مجھے اپنے خیالات میں بھی گھٹن محسوس ہوتی ہے۔

پاکستان کا المیہ ہے کہ اس کا سب سے قیمتی سرمایہ ’ہیومن کیپٹل‘ ریت کے ذرات کی مانند ہاتھوں سے سرکتا جارہا ہے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ بقول ناصر کاظمی

مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی

وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا

اپنے مستقبل پر چھائے تاریکی کے بھیانک سائے سے گھبرائے اکثر نوجوان غیر قانونی ذرائع سے بھی بیرونِ ملک جانے سے دریغ نہیں کررہے۔ جب کبھی غیر ملکی تارکین وطن کی کوئی کشتی یورپی ممالک کے یخ بستہ ساحلوں میں ڈوبتی ہے تو جان سے ہاتھ دھونے والوں کے آخری لمحات کی سسکیاں عرش تک ضرور پہنچتی ہوں گی کہ وہ کون سے حالات تھے جو انہیں اپنے پیاروں سے دور دیار غیر میں موت کی آغوش میں لے آئے؟

حالات کے ستائے لوگ ملک چھوڑنے کے لیے غیرقانونی راستوں کا انتخاب کرنے سے بھی نہیں کتراتے
حالات کے ستائے لوگ ملک چھوڑنے کے لیے غیرقانونی راستوں کا انتخاب کرنے سے بھی نہیں کتراتے

معاشی اور معاشرتی حالات کی ابتری انہیں اس انتہائی اقدام پر مجبور کررہی ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح وہ دوسرے ملک میں پہنچ جائیں تاکہ ان کی ذلت کی ماری زندگیوں میں کوئی بہتری آجائے۔ انہیں وہاں صرف ایک چیز کھینچ کرلے جارہی ہے اور وہ ہے ’اُمید‘۔۔۔ ایک اچھے مستقبل کی اُمید۔

ایسی فضا جہاں وہ محنت سے اپنا مقام بنا سکتے ہیں جہاں ان کا بیٹا یا پوتا کسی مغربی ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہے جوکہ ان کے آبائی وطن میں ایک دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں مایوسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ یقین کیجیے اگر آج ہی اعلان ہوکہ جہاز بھر کر لاہور یا اسلام آباد کے ایئرپورٹ سے امریکا یا کسی یورپی ملک جارہا ہے تو لوگ کابل ایئرپورٹ کے دردناک مناظر بھول جائیں گے۔

تلاش روزگار میں ہجرت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ تاریخ انسانی، مگر ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ جس ملک کو ’برین ڈرین‘ کا دیمک لگ جائے اس کے در و دیوار ہوا کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پر آجاتے ہیں۔ ملک کو چلانے والے عالی دماغ جنہیں کسی ملک کی’کریم’ کہا جاتا ہے وہ ملک سے چلے جائیں تو پیچھے ’چھان بورا‘ ہی رہ جاتا ہے۔ یہی بات ہمارے کرتا دھرتا شاید سمجھ نہیں رہے ہیں۔

انہیں بیرونِ ملک اچھے مستقبل کی امید کھینچ کر لے جاتی ہے
انہیں بیرونِ ملک اچھے مستقبل کی امید کھینچ کر لے جاتی ہے

سیاسی اکابرین ’تخت یا تختے‘ کی جنگ میں ایسے مصروف ہیں کہ انہیں کسی اور چیز کی پروا ہی نہیں۔ نوجوانوں میں مایوسی اور ڈپریشن انتہا کو پہنچ چکی ہے جبکہ یہ وہ آتش فشاں ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی

تنگ آچکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم

ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم

لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ اُمید

لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے

پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

تبصرے (0) بند ہیں