کراچی:90 فیصد مردم شماری میں شہر کی آبادی میں کمی

11 اپريل 2023
کراچی میں مردم شماری تقریباً 90 فیصد مکمل ہوچکی ہے—فائل/فوٹو: ڈان
کراچی میں مردم شماری تقریباً 90 فیصد مکمل ہوچکی ہے—فائل/فوٹو: ڈان

کراچی میں مردم شماری کا عمل تقریباً 90 فیصد مکمل ہوگیا جہاں دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہر کی مجموعی آبادی میں 6 برس قبل کے مقابلے میں 15 فیصد کمی کا امکان ہے جس کے بعد نیا تنازع جنم لینے کا خدشہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مردم شماری کا عمل پیر کو مکمل ہونا تھا تاہم دوسری مرتبہ توسیع کی گئی ہے کیونکہ عملہ کئی گھرانوں تک نہیں پہنچ پایا۔

کراچی جیسے گنجان آباد شہر کی آبادی بدستور تنازع کا سبب ہے جو 2017 کی مردم شماری میں سامنے آگیا تھا، سیاسی جماعتیں خاص طور پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ شہر کی بتائی گئی مجموعی آبادی اصل تعداد سے کم ہے۔

اسی تنازع کی وجہ سے مردم شماری 6 سال کے اندر اندر دوبارہ کروائی جا رہی ہے۔

مردم شماری کے اعداد و شمار سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ شہر میں اب تک 26 لاکھ 40 ہزار سے زائد گھرانوں کی مردم شماری ہوچکی ہے اور اس طرح 89.93 فیصد عمل مکمل ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت شہر کی آبادی ایک کروڑ 34 لاکھ 71 ہزار 136 افراد پر مشتمل ہے، جو 2017 کی مردم شماری کے 89.93 فیصد کے بعد 15.94 فیصد کم ہے، 2017 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 24 ہزار 894 تھی اور حتمی نمبر تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ 50 ہزار بنتا ہے۔

ڈان کو ذرائع نے بتایا کہ اس وقت محض 10 فیصد آبادی شمار ہونے سے رہ گئی ہے اور اگر ہم کراچی کی آبادی میں اضافے کی بات کریں تو ہمیں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے۔

گزشتہ 5 برسوں کے دوران کراچی کے تمام ساتوں اضلاع شرقی، غربی، جنوبی، وسطی، کورنگی، کیماڑی اور ملیر میں آبادی میں اضافہ رجسٹر نہیں ہوا۔

آبادی میں کمی کے حوالے سے کراچی شرقی پہلے نمبر پر ہے جہاں 25 فیصد کمی آئی ہے، شرقی میں تقریباً 85 فیصد مردم شماری مکمل ہوچکی ہے، اسی طرح کا رجحان ضلع جنوبی میں بھی دکھا گیا جہاں 19.7 فیصد کمی آئی اور اب تک 92.64 فیصد مردم شماری ہوچکی ہے۔

ضلع کورنگی میں 2017 کے مقابلے میں ایک فیصد آبادی کم ہوئی ہے، کیماڑی میں 17 فیصد، وسطی میں 11.84 فیصد، غربی میں 9.68 فیصد اور ملیر میں 6.61 فیصد کمی آئی ہے۔

پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کی مردم شماری کے سربراہ ڈاکٹر نعیم الظفر کا کہنا تھا کہ 90 فیصد عمل مکمل ہونے کے باوجود دستاویزات سے حتمی تعداد کا اندازہ نہیں لگانا چاہیے۔

ڈاکٹر نعیم الظفر کا کہنا تھا کہ کراچی میں ابھی 10 فیصد گھرانوں کی مردم شماری رہتی ہے تو اس وقت حتمی تعداد سے متعلق اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں آبادی بہت زیادہ ہے اور عملہ اب تک وہاں نہیں پہنچ پایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حتمی تعداد اسی وقت معلوم ہوسکتی ہے جب مردم شماری کا عمل مکمل ہوجائے۔

واضح رہے کہ اعداد وشمار میں تاخیر کی وجہ سے کام میں پیر سے 14 اپریل تک 5 روز کی توسیع کردی گئی ہے، اس سے قبل تاریخ 10 اپریل تک بڑھا دی گئی تھی جو ابتدائی طور پر 4 اپریل مقرر کی گئی تھی۔

ڈاکٹر نعیم الظفر کا کہنا تھا کہ ڈیڈلائن میں توسیع کردی گئی ہے، عملہ ہر شہری تک پہنچنے کے لیے بھرپور کوشش کرے گا۔

خدشات

ڈاکٹر نعیم الظفر نے ضلعی انتظامیہ کے کردار اور ان کی ٹیم کو مرکزی شہری علاقوں میں پیش آنے والی مشکلات پر تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ اسسٹنٹ کمشنرز کی جانب سے عدم توجہ کا مظاہرہ کیا گیا جس سے مردم شماری کے عمل اور نتائج میں اثر پڑا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کراچی اور لاہور کی طرح اہم شہری مراکز میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر نعیم الظفر نے کہا کہ بدقسمتی سے اسسٹنٹ کمشنرز اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر رہے ہیں، وہ فیلڈ میں نظر نہیں آتے، وہ عملے کو صحیح طرح تعینات یا ان کو کام تفویض نہیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی بی ایس نے کئی مرتبہ صوبائی حکومتوں کو ان مسائل پر تحریری طور پر آگاہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فیلڈ اسٹاف کو بھی کئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان کا خوف اربوں روپے کے اس عمل کے حتمی نتائج پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

مردم شماری کے عمل کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ ملک کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے تیار کیے گئے سوفٹ ویئر میں پورے عمل کو ٹیکنیکل انتظامیہ کے ساتھ’تھوڑے مگر اہم نقائص’ ہیں۔

مردم شماری کے عملے کی جانب سے اٹھایا گیا دوسرا مسئلہ شہریوں کی جانب سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ ہے۔

اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ شہری اپنا ڈیٹا یا خاندان کی تفصیلات یہاں تک کہ حکومت کو بھی نہیں دینا چاہتے ہیں، یہ مسئلہ پہلے کبھی نظر نہیں آیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں گاؤں، قصبوں اور شہری علاقوں سے رپورٹس ملی ہیں جہاں لوگوں نے عملے کو اپنی تفصیلات دینے سے صاف انکار کیا، اس سے یا تو وہ اتنے بڑے عمل کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں یا پھر انہیں حکومت یا اداروں پر اعتماد نہیں رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں