مغربی افریقی ملک برکینا فاسو کے ایک گاؤں میں فوجی وردی پہنے افراد نے تقریباً 60 شہریوں کو قتل کر دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق مقامی پراسیکیوٹر نے ملک میں تازہ ترین خونریزی کی تحقیقات کا اعلان کر دیا۔

مغربی افریقہ کا ملک دنیا کے سب سے زیادہ غیر مستحکم اور غریب ملکوں میں سے ایک ہے۔

برکینا فاسو میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جو پڑوسی ملک مالی سے پھیلنے والی بغاوت سے نبرد آزما ہے۔

اوہائیگویا ہائی کورٹ کے پراسیکیوٹر لیمنی کبور نے ’اے ایف پی‘ کو ایک بیان میں بتایا کہ ہماری قومی مسلح فورسز کے یونیفارم پہنے افراد نے تقریباً 60 افراد کو قتل کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ زخمی افراد کی نگہداشت کے لیے طبی مراکز میں منتقل کر دیا گیا ہے، مزید کہا کہ کہ مجرم ’مختلف سامان بھی لے اڑے‘۔

کرما گاؤں مالیان کی سرحد کے قریب ہے اور غیر قانونی سونے کی کان کنوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

شہریوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ 100 سے زائد افراد نے موٹرسائیکلوں اور ٹرکوں پرگاؤں میں چھاپہ مارا۔

انہوں نے بتایا کہ فوجی یونیفارم پہنے مسلح افراد نے درجنوں آدمیوں اور نوجوانوں کو قتل کر دیا۔

ان لوگوں نے بتایا کہ تقریباً 80 افراد کی اموات ہوئی ہیں۔

حالیہ قتل عام اس واقعے کے ایک ہفتے بعد رونما ہوا ہے جب اورما دیہات کے قریب مشتبہ مسلح افراد کے حملے میں 34 دفاعی رضا کار اور 6 جوان مارے گئے تھے، جو صوبائی دارالحکومت اوہائیگویا سے 15 کلومیٹر اور کرما سے 40 کلومیٹر دور ہے۔

حملوں کا الزام القاعدہ اور داعش سے منسلک مسلح افراد پر عائد کرتے ہوئے برکینا فاسو کے فوجی جنتا نے خونی حملوں کے سلسلے سے نمٹنے کے لیے ریاست کو ’تمام ضروری ذرائع‘ فراہم کرنے کے لیے ’عوام کو متحرک‘ کرنے کا اعلان کیا۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے زیادہ عمر اور جسمانی طور پر فٹ کوئی بھی شخص جو مسلح افواج میں نہیں ہے ’مجاز حکام کی طرف سے ظاہر کی گئی ضروریات کے مطابق بھرتی کے لیے بلایا جائے گا‘۔

حکومت نے پہلے ہی 2015 سے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے والی بغاوت سے لڑنے کے لیے مزید 5 ہزار فوجیوں کو بھرتی کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔

برکینا کے عبوری صدر کیپٹن ابراہیم ترور نے ملک کے 40 فیصد علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے کا اعلان کیا ہے جو عسکریت پسندوں کے زیر کنٹرول ہیں۔

غیر حکومتی امدادی گروپ کے مطابق پرُتشدد واقعات سے اب تک 10 ہزار افراد ہلاک اور 20 لاکھ سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں