’کراچی کی آبادی ساڑھے 3 کروڑ سے کم گنی گئی تو جماعت اسلامی مزاحمت کرے گی‘

اپ ڈیٹ 01 مئ 2023
جماعت اسلامی کے زیر اہتمام احتجاج میں خواتین و بچوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی — فوٹو: شکیل عادل
جماعت اسلامی کے زیر اہتمام احتجاج میں خواتین و بچوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی — فوٹو: شکیل عادل

جماعت اسلامی کے کارکنوں اور حامیوں نے کراچی میں شاہراہ فیصل پر مارچ کرتے ہوئے کراچی کی آبادی کی کم گنتی کر کے صوبے کا وزیر اعلیٰ بننے سے روکنے کے لیے ’ناقص مردم شماری‘ اور ’منظم منصوبہ بندی‘ کے خلاف احتجاج کیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق نرسری بس اسٹاپ کے قریب سڑک کے دونوں اطراف پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے، پارٹی کے جھنڈے لہرا کر کراچی کے حقوق کے لیے نعرے بلند کرتی ہوئی خواتین اور بچوں سمیت مظاہرین نے خبردار کیا کہ کراچی کی آبادی کی ساڑھے 3 کروڑ سے کم گنتی کی گئی تو شہریوں کا سخت ردعمل دیکھنے کو ملے گا، یہ مارچ دو گھنٹے سے زائد جاری رہا۔

ہزاروں مظاہرین کی قیادت کرنے والے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنی تقریر میں مردم شماری کی جاری مشق میں شامل وفاقی حکام اور اداروں اور حکمران اتحاد کے رہنماؤں کو چیلنج کیا کہ اگر کسی کو کراچی کی آبادی ساڑھے 3 کروڑ سے کم ہونے کے حوالے سے کوئی شکوک ہیں تو عوام میں آکر ان سے بحث کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں شاہراہ فیصل پر تمام نسلوں، فرقوں، مذاہب اور قومی شناختوں کی نمائندگی کرتا لوگوں کا یہ سمندر جاری مردم شماری پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے اور وہ کراچی کی ساڑھے 3 کروڑ سے کم آبادی کی کسی بھی تعداد کو قبول نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اور کہاں ہیں نام نہاد قومی لیڈر، چاہے وہ عمران خان ہوں یا نواز شریف، آصف زرداری ہوں یا اسفند یار ولی؟ آپ کراچی اور اس کے عوام کے حقوق کے لیے کیوں نہیں بولتے؟ آپ اس شہر کا حال کیوں نہیں دیکھتے؟ میں آپ کو باآواز بلند صاف بتاتا ہوں، مردم شماری کے نام پر دوبارہ دھوکا ہوا تو کراچی کے عوام آپ میں سے کسی کو معاف نہیں کریں گے۔

حافظ نعیم نے کراچی کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں کی جانب سے قومی مردم شماری 2017 کے خلاف کردار ادا نہ کرنے کو مجرمانہ فعل قرار دیا جو شہر کی آبادی کو اصل تعداد سے بہت کم کرنے کے ارادے کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اب وہی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے دوبارہ ’سودے بازی‘ کر رہی ہیں اور جاری مردم شماری کو اس کی تمام خامیوں کے ساتھ قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ مذاق نہیں ہے کہ وہ شہر جسے ملک کا کاروباری دارالحکومت کہا جاتا ہے، اپنے نوجوانوں کے لیے نوکریوں کا رونا رو رہا ہے؟ کیا یہ دھوکا نہیں کہ ملک کے ہر حصے کے لوگوں کو پورا کرنے والے شہر کو سیاسی فائدے اور نسلی تفریق کے نام پر دیوار سے لگایا جاتا ہے؟ یہ ذہنیت مزید کام نہیں کرے گی اور جماعت اسلامی کراچی مخالف تمام منصوبوں کی مزاحمت کرنے کے لیے اپنے ہر قانونی، جمہوری اور آئینی حق کو استعمال کرے گی۔

امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ شہر میں اصل گنتی سے اس کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 44 سے بڑھ کر 65 ہو جائیں گی، جس سے 130 نشستوں کے ایوان میں کراچی کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی راہ ہموار ہو سکتی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اسے اپنی سیاسی خودکشی تصور کرے گی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے علاوہ دوسری جانب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اس طرح کے دیگر منصوبوں میں بدعنوانی کا دائرہ زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے صوبے کے دیہی علاقوں میں گھرانوں کی تعداد میں دھوکا دہی سے اضافہ کیا جا رہا ہے، کراچی کی ترقی کا نتیجہ براہ راست پاکستان کی ترقی پر پڑے گا اور پیپلز پارٹی سے مطالبہ کیا کہ کراچی کے ساتھ صوبے کے دیگر حصوں جیسا سلوک کیا جائے۔

انہوں نے پیپلز پارٹی حکومت کی غفلت، بدعنوانی اور نااہلی کو اجاگر کرتے ہوئے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں اسٹارٹ اَپ انکیوبیٹرز دستیاب ہیں لیکن سندھ میں نہیں اور حکام سے سوال کیا کہ کراچی میں کوئی میگا ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کیوں نہیں شروع کیا گیا، شہر میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کیوں نہیں اور پورا شہر کیوں تباہی کا شکار ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں