پاکستان میں سیاسی مخالفین کےخلاف توہین مذہب کے قانون کے استعمال پر امریکا کو تحفظات

اپ ڈیٹ 03 مئ 2023
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے قانون کے حوالے سے اپنی سفارشات بھی پیش کی — فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے قانون کے حوالے سے اپنی سفارشات بھی پیش کی — فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکا نے گزشتہ دو دنوں میں دو بار سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے استعمال پر موجودہ حکومت کے فیصلے پر عوامی سطح پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پیر کو امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ مسئلہ اٹھایا، جس میں کہا گیا کہ 2022 میں برسر اقتدار آنے والی حکومت وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں توہین مذہب کے قانون کو سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ارکان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں توہین مذہب کے واقعات مذہبی آزادی کے لیے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں اور اسی طرح پرہجوم تشدد کا بھی معاملہ ہے جو طویل عرصے سے اس طرح کے الزامات کے ساتھ ہے۔

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایک دو طرفہ پینل ہے جس کے پاس کانگریس کا مینڈیٹ ہے جو پوری دنیا میں مذہب کی بنیاد پر روا رکھنے جانے والے امتیازی سلوک کی نشاندہی کرتا ہے اور اس امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کرتا ہے۔

امریکی انتظامیہ ہمیشہ تو نہیں لیکن اکثر ان تجویز کردہ اقدامات کا نفاذ عمل میں لاتی ہے۔

یہ معاملہ بعد میں منگل کو ایک نیوز بریفنگ کے دوران بھی اس وقت دوبارہ زیر بحث آیا جب ایک صحافی نے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل کو یاد دلایا کہ توہین مذہب کے الزامات کے نتیجے میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور سوال پوچھا کہ کیا امریکا، توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال سے متعلق اپنے تحفظات سے پاکستانی حکومت کو آگاہ کرے گا؟

ویدانت پٹیل نے کہا کہ ہم ایسے قوانین کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں جو کسی بھی فرد کی قومی شناخت سے قطع نظر اس کی قابلیت میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، ان سے عقیدے کا انتخاب کرنے، عقیدے پر عمل کرنے، اپنا مذہب تبدیل کرنے، مذہب نہ رکھنے کا کہتے ہیں یا دوسروں کو اپنے مذہبی عقائد اور طریقوں سے آگاہ کرتے۔

اپریل 2022 میں حکومت نے سابق وزیر اعظم اور دیگر 150 افراد پر مکہ مکرمہ میں حکومت مخالف مظاہرے کرنے پر ملک کے توہین مذہب کے قانون کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔

یہ الزامات اس وقت عائد کیے گئے تھے جب سعودی عرب کے سرکاری دورے کے دوران کچھ پاکستانی زائرین کی طرف سے شہباز شریف اور ان کے وفد کے ساتھ بدتمیزی کے ساتھ ساتھ نعرے بازی بھی کی گئی تھی۔

سوشل میڈیا پر زیر گردش متعدد ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ جب شہباز شریف اور ان کی ٹیم کے ارکان عمرہ کر رہے تھے تو لوگوں نے ’غدار‘ اور ’چور‘ کے نعرے لگائے تھے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے سیاسی انتقام کے لیے توہین مذہب کے الزامات عائد کیے جانے کے عمل کو مسترد کر دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد عمران خان کو حکومت مخالف مظاہروں کو منظم کرنے سے روکنا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے بھی پی ٹی آئی قیادت کے خلاف مقدمات کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا، انسانی حقوق پر گہری نظر رکھنے والے ادارے نے کہا کہ کوئی بھی حکومت یا سیاسی جماعت توہین مذہب کے الزامات کو اپنے حریفوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی 2023 کی رپورٹ میں پاکستان سے توہین مذہب کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور قانون کی منسوخی تک توہین مذہب کو قابل ضمانت جرم بنانے کے لیے اصلاحات نافذ اور الزام لگانے والوں کے لیے ثبوت کی فراہمی لازمی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

رپورٹ میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا جائزہ بھی شامل ہے جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کا استحکام اور سلامتی طویل عرصے سے امریکا کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دیے گئے 32 ارب ڈالر کے ساتھ پاکستان، امریکی غیر ملکی امداد کے سب سے بڑے وصول کنندگان میں شامل ہے۔

2023 کے آغاز تک امریکی حکومت نے گزشتہ سال آنے والے تباہ کن سیلاب سے پیدا ہونے والے بحران میں مدد کے لیے 9 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی انسانی امداد فراہم کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں