امریکا اور سعودی عرب کا سوڈان میں قیام امن کیلئے جدہ میں مذاکرات کا خیرمقدم

اپ ڈیٹ 07 مئ 2023
اس تنازع کے سبب اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد سوڈان سے نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
اس تنازع کے سبب اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد سوڈان سے نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں— فوٹو: اے ایف پی

امریکا اور سعودی حکومتوں نے آپس میں برسر پیکار سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان براہ راست مذاکرات جدہ میں شروع ہونے کی تصدیق کی ہے حالانکہ سوڈانی دارالحکومت میں لڑائی کے آثار کم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکا اور سعودی عرب کے ایک مشترکہ بیان میں مذاکرات سے قبل بات چیت کے آغاز کا خیرمقدم کیا گیا اور لڑائی کو روکنے کے حوالے سے عالمی حمایت کی بھی یقین دہانی کرائی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور امریکا نے دونوں نے فریقیں پر زور دیا کہ وہ سوڈانی قوم اور اس کے عوام کے مفادات کو مدنظر رکھیں اور جنگ بندی کے قیام اور تنازع کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا حصہ بنیں۔

فوج کی قیادت کرنے والے سوڈان کے لیڈر عبدالفتاح البرہان اور ریپڈ سپورٹ فورسز کی قیادت کرنے والے ان کے نائب و حریف محمد حمدان ڈگلو کی فورسز کے درمیان تقریباً تین ہفتوں سے جاری لڑائی میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

15 اپریل کو لڑائی شروع ہونے کے بعد سے متعدد مرتبہ جنگ بندی کا عزم ظاہر کیا گیا لیکن ہر مرتبہ اس کی پاسداری نہیں کی گئی۔

فوج نے جمعہ کو دیر گئے اس بات کی تصدیق کی کہ اس نے اپنے پیراملٹری دشمنوں کے ساتھ توسیعی جنگ بندی کی تفصیلات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اپنے ایلچی سعودی عرب بھیجے ہیں۔

عبدالفتاح البرہان نے بدھ کو جنوبی سوڈان کی طرف سے اعلان کردہ 7 روزہ جنگ بندی کی حمایت کی تھی لیکن جمعہ کے اوائل میں ریپڈ سپورٹ فورسز نے کہا کہ وہ امریکی-سعودی ثالثی کے تحت ہونے والی سابقہ جنگ بندی میں تین دن کی توسیع کر رہے ہیں۔

امریکا اور سعودی عرب کے بیان میں اس ہفتے کے اواخر میں ہونے والے مذاکرات کے پس پردہ دوسرے ممالک اور تنظیموں کی کوششوں کا ذکر کیا گیا، جن میں برطانیہ، متحدہ عرب امارات، عرب ریاستوں کی لیگ، افریقی یونین اور دیگر گروپ شامل ہیں۔

خرطوم میں عینی شاہدین نے ہوائی اڈے کے قریب سمیت مسلسل ہوائی حملوں اور دھماکوں کی اطلاع دی، امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے سوڈان کے امن، سلامتی اور استحکام کو خطرے میں ڈالنے اور سوڈان کی جمہوری منتقلی کے عمل کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار عناصر کے خلاف پابندیوں کی دھمکی کے باوجود لڑائی جاری ہے۔

شمال افریقی ملک سوڈان کو اس سے قبل مطلق العنان عمر البشیر کے دور میں کئی دہائیوں کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جہاں عمر البشیر کو 2019 میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد محل میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں معزول کر دیا گیا تھا۔

جو بائیڈن نے کہا تھا کہ سوڈان میں ہونے والا تشدد ایک بڑا سانحہ ہے اور یہ سوڈانی عوام کے سویلین حکومت اور جمہوریت کی جانب منتقلی کے واضح مطالبے سے غداری ہے، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

اس تصادم کے حوالے سے جمع شدہ اعداد و شمار کے مطابق تنازع میں اب تک تقریباً 700 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے خبردار کیا تھا کہ سوڈان کی صورتحال خوفناک حد تک بچوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے مہلک بن چکی ہے۔

ترجمان جیمز ایلڈر نے کہا کہ یونیسیف کو ایک قابل اعتماد پارٹنر کی جانب سے رپورٹس موصول ہوئی ہیں کہ تنازع کے پہلے 11 دنوں کے دوران 190 بچے ہلاک اور 1700 زخمی ہوئے تاہم ان رپورٹس کی ابھی تک آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔

انہوں نے کہا کہ خرطوم اور دارفر میں 15 اپریل سے محکمہ صحت کے مراکز سے اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں صرف ان بچوں کا احاطہ کیا گیا جنہوں نے حقیقت میں ان علاقوں میں طبی اداروں میں سہولیات سے استفادہ کیا لہٰذا حقیقی صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

امدادی کارکنان کو تشدد سے متاثرہ علاقوں تک انتہائی ضروری سامان پہنچانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔

انٹرنیشنل میڈیکل کور کے مطابق شہروں میں شدید لڑائی کے دوران اب تک کم از کم 18 امدادی کارکن مارے جا چکے ہیں۔

اس سے قبل امریکی ڈائریکٹر برائے قومی انٹیلی جنس ایورل ہینس نے سینیٹ کی سماعت میں کہا تھا کہ واشنگٹن کو توقع ہے کہ یہ تنازع طویل عرصے تک جاری رہے گا، لڑائی طویل ہونے کا امکان ہے کیونکہ دونوں فریقیں کو یقین ہے کہ وہ عسکری طور پر فتح حاصل کر سکتے ہیں اور مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے ان کے پاس بہت کم وجوہات ہیں۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق 8 لاکھ 60 ہزار افراد کے خروج کی تیاری کی جارہی ہے اور اکتوبر تک ان کی مدد کے لیے 44 کروڑ 50 لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔

ایورل ہینس نے کہا کہ تنازع نے پہلے سے ہی سنگین انسانی صورتحال میں اضافہ کردیا ہے اور خطے میں بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کے بہاؤ اور امداد کی ضروریات کو بڑھا دیا ہے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ اگر لڑائی جاری رہتی ہے تو پہلے غذائی قلت اور بھوک سے دوچار 25لاکھ سوڈانی باشندوں کی تعداد مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کے ترجمان فرحان حق نے کہا کہ اس تنازع سے اگلے تین سے چھ ماہ میں بھوک اور غذائی قلت کا شکار افراد کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 90 لاکھ افراد تک بڑھ جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں