فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

اب جبکہ پچھلی حکومت کی جانب اعتراضات کی توپوں کی گھن گرج تقریبا ختم ہو چکی ہے اورامید نہیں کہ دوبارہ شروع ہوگی تاآنکہ موجودہ حکومت پھر کوئی غلط قدم نہ اٹھائے یا پھرکچھ مخصوص طاقتور عوامل کسی خاص وجہ سے کوئی طوفان نہ اٹھانا چاہیں، یہ ممکن ہو گا کہ ریاست سنجیدہ مسئلوں پر اپنی توجہ مرکوز کر سکے۔

لاہور کی اعلی عدلیہ کی بار نے یہ احسن قدم اٹھایا ہے کہ 'توہین عدالت کے قانون کا اثر فرد کی آزادیء رائے پر' کے عنوان پر گفتگو کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ ان موضوعات میں سے ایک ہے جن پر توہین عدالت کے قانون کا اکثر اطلاق ہوتا ہے اور جسے ضرور طے ہونا چاہئے۔

اگرچہ عدالتیں اپنے فیصلوں کی حمایت میں رائے زنی اور ججوں کے رویوں کی تعریف کو، بلکہ میڈیا میں قابل اعتراض باتوں پر عدالت کے سامنے آنے سے پہلے بحث کوبھی برداشت کرنے لگی ہیں، جس کی پہلے اجازت نہیں تھی، لیکن ابھی بھی میڈیا سے وابستہ لوگوں اور عوام کے حقوق ججوں اور ان کے فیصلوں اور ضابطوں پر رائے زنی کے حوالے سے بہت زیادہ واضح نہیں ہیں۔

جہاں یہ صحیح ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور وقار پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں ہے وہیں توہین عدالت کے قانون کی وقعت اور اس کا فائدہ بھی اسے کم سے کم استعمال کرنے پر ہے۔ یہ قول بالکل درست ہے کہ عدالتوں کیلئے اپنی عزت اوروقارکا حصول اپنے فیصلوں میں توازن، تدبر اور توہین عدالت کے قانون کے استعمال کا کم سے کم مظاہرہ کر کے ہی ہوتا ہے۔

کم ترقی یافتہ ملکوں میں عدالتیں اکثر شہریوں کوریاست کی زیادتیوں سے تحفظ دلانے کا فریضہ بھی انجام دیتی ہیں لیکن اس دخل اندازی کی حد اوراس کی نوعیت طے ہونا ابھی باقی ہے۔

مثال کے طورپراس بات کو واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کی کسی پالیسی کو کالعدم قرار دینے کی صورت میں عدالت کو نیا قانون وضع کرنے کا بھی حق ہے۔ حکومت کوقانون اور آئین کے مطابق عمل کرنے کا فرض یاد دلانے سے بھی بڑھ کر۔ بالکل اسی طرح عدالتوں کواعلی انتظامیہ کو غلط کاموں سے روکنے کا حق حاصل ہے۔ مگر اس میں شک ہے کہ وہ انتظامیہ کا کردار سنبھال کر ان کی ذمہ داریاں ادا کرنے لگیں۔

یہ امید کی جاتی ہے کہ نہ صرف وکلاء بلکہ دانشور اور عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے اہم شہری بھی توہین عدالت کے قانون پربحث کریں گے اور اس معاملے سے متعلق تمام لوگوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کریں گے۔

بابر ایاز کی خیال انگیز تصنیف، What is wrong with Pakistan کے منظر عام پر آنے کے بعد ریاست کے خدوخال کو لے کر بنیادی قسم کی ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

سچائی اور دیانتداری کے جذبے کے ساتھ لکھی ہوئی یہ بے لاگ تحریر، جو تاریخی دستاویزات کا خاصہ ہونی چاہئیں، پاکستانی عوام کی سیاسی بھول بھلیوں میں بھٹکتے پھرنے کا قصہ سناتی ہے جو لاہور کے 1940 کی قرارداد سے لے کر حالیہ عام انتخابات پر آ کے ختم ہوتا ہے اور لوگوں کو یہ دعوت دیتی ہے کہ اپنی مشکلات کے اسباب کے بارے میں غور و فکر کریں بجائے اس کے کہ ہر طرف سے سیکیورٹی اور نظریوں سے متعلق بوچھاڑ کو بھگتیں۔

اصل مشکل اس وقت شروع ہوئی جب مسلم اشرافیہ نے مذہب کو اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو فروغ دینے کیلئے استعمال کرنا شروع کیا اور مقصد سے زیادہ اہمیت طریقہ کی ہو گئی۔ ریاست کے اس مسخ شدہ تصورکا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں مختلف نسلوں اور قومیتوں کے تصور کو شدید ضرب لگی اور ریاست میں مرکزیت کا تصور جڑ پکڑ گیا۔ اس غلط رویے نے ٹوٹ پھوٹ کے عمل کے بیج کو جنم دیا جو ریاست کے صرف چوبیسویں سال کے اندر ہی مکمل ہو گیا۔

بابر ایاز ایک سیکولر ریاست کے حق میں اپنی دلیل کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں پنجاب کے علاوہ سارے باقی صوبوں کا استحصال مذہب کے نام پر ہو رہا ہے، فوجی آمریت میں ناگزیر پھیلاؤ اور جنرل ضیاء کی ملک کو ایک مذہبی ریاست بنانے کی کوشش کا ازالہ اسی طرح ممکن ہے۔

اگر نیشنل سیکیورٹی اور اسلامی نظریہ کو ایک ہی سکہّ کے دو رخ مان لیا جائے تو پاکستان کی دفاعی وابستگیاں اور خارجہ پالیسی کی ترجیحات لوگوں کی توقعات کے بالکل برعکس ہونگی۔ مذہبی انتہاپسندی اور ذاتی جہادی جذبہ نے ایک ایسی عجیب صورت حال پیدا کر دی ہے جہاں ایک ناکام حکومت کے تصور سے لڑنا پڑتا ہے تا کہ نجات کی امید باقی رہے۔

مصنف نے زیادہ تر بڑی صاف گوئی سے کام لیا ہے کیونکہ اس کی خواہش ہے کہ اپنا عکس بدنما نظر آنے پر لوگ آئینہ کو الزام دینا چھوڑ دیں۔ اس کی یہ کاوش نتیجہ خیز نہیں ہو گی اگر اس کے اس کلئے کی مخالفت کرنے والوں نے اس کا چیلنج قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ ایک کھلے ذہن کے ساتھ بات کئے بغیر ساٹھ سالہ بحران کا حل ڈھونڈھنا ممکن نہیں ہے۔ سیکولر راستوں پر چل کر ریاست کی حفاظت کے تصور کے بارے میں گفتگو اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جبتک کہ اس کے متوازی مذہبی حکمرانی کے ناگزیر خطرات کے بارے میں بھی گفتگو نہ ہو۔

پاکستان کے عوام کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی، مذہبی ریاست کے حامیوں نے یہ کی کہ اسلامی افکار کو ایک اس سے بھی بڑے سرد خانے میں رکھ دیا جس میں اقبال نے اسے پایا تھا اور اسے مسلمانوں کے زوال کا سبب قرار دیا تھا۔

مذہب کے بارے میں بحث و مباحث سے کس طرح نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں یہ عبدللہ النعیمی کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے جو مسلمانوں کی سیاسیات پر دنیا کی مانی ہوئی اتھارٹی ہیں۔ انہوں نے مسلم ممالک میں مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کی مخالفت سے بات شروع کی لیکن اس تنبیہ کے ساتھ کہ ایک جدید مسلمان ریاست میں کلاسیکی اسلام نافذ کر کے نہ تو آپ عورتوں کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ۔ نتیجتاً آپ دنیا کی برادری سے خارج سمجھے جائینگے۔

اس سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تشریح مکہّ میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کی روشنی میں کی جائیں بجائے مدنی آیات کے۔ لیکن اس کیلئے علماء کو"نسخ" کے کلیّہ پرنظر ثانی کرنا ہو گی۔ یعنی بعد میں آنے والی وحی پچھلی ہدایات کومنسوخ کر دیتی ہے۔ کئی مسلم ریاستوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد جس میں پاکستان بھی شامل ہے النعیمی اپنی تازہ ترین کتاب 'اسلامی ریاست اور شریعہ' میں لکھتے ہیں کہ اسلام یہ حکم نہیں دیتا ہے کہ اعتقادات کو ریاست کے معاملات میں ملا دینا چاہئے، ریاست کے معاملات ہمیشہ سیکولر ہوتے ہیں۔

اگر پاکستان کی مذہبی اتھارٹیز اپنے شاگردوں کو اس بات کی اجازت دے دیں کہ وہ قرانی احکامات کی پیروی کریں تو انہیں بابر ایاز اور دوسرے سیکولر عناصر سے متفق ہونے کا ایک مذہبی راستہ مل سکتا ہے۔


ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (1) بند ہیں

qBaloch Sep 05, 2013 02:20pm
Funny... :)