سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران مسلح ڈاکوؤں کے ہاتھوں شہریوں کے قتل میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سندھ پولیس کے جمع کردہ اعداد و شمار میں بتاتے ہیں کہ رواں سال جنوری سے مئی تک کراچی کے 44 شہریوں کو ڈاکوؤں نے قتل کیا، تاہم گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 26 تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں سال کے دوران ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل کی وارداتوں میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔

پولیس موبائل فون چھیننے، ڈکیتی، موٹر سائیکل/کار چھیننے اور چوری کے واقعات کو اسٹریٹ کرائم کے زمرے میں درج کرتی ہے۔

سال کا آغاز 25 سالہ جہانگیر سہیل کے قتل سے ہوا جسے سال کے پہلے ہی دن اس کے گھر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اوسطاً ہر تیسرے دن ایک شہری کو قتل کیا جاتا ہے۔

بہت سے معاملات میں، مسلح مجرموں نے متعدد ایسے شہریوں کو بھی گولی مار دی جنہوں نے کسی بھی قسم کی جسمانی یا زبانی مزاحمت بھی نہیں کی البتہ پولیس ایسی تمام وارداتوں کی ڈکیتی مزاحمت کے طور پر درجہ بندی کرتی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ اس حقیقت سے متاثرہ شخص نے مزاحمت کی یا نہیں۔

اس دوران 11 ہزار 500 سے زائد سیل فون چھین لیے گئے یا چوری ہوگئے۔

سندھ پولیس کے اعداد و شمار صوبائی دارالحکومت میں سنگین لاقانونیت کی مجموعی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔

اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کراچی میں پہلے پانچ ماہ کے دوران 116 دکانوں میں ڈکیتی اور ایک ہزار 713 دیگر ڈکیتی یا چوری کی وارداتیں ہوئیں۔

اس دوران شہریوں سے کم از کم 518 کاریں چھین لی گئیں جن میں سے 46 گن پوائنٹ پر چھینی گئیں جبکہ 472 چوری کی گئیں۔

پہلے پانچ مہینوں کے دوران تقریباً 4 ہزار441 موٹر سائیکلیں چوری کی گئیں جبکہ ایک ہزار 191 بندوق کی نوک پر چھینی گئیں۔

اسی عرصے کے دوران چھینے یا چوری کیے گئے موبائل فونز کی تعداد 11 ہزار 936 رہی۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنوری سے مئی کے دوران مبینہ پولیس مقابلوں میں 38 مشتبہ ڈاکو مارے گئے۔

پولیس نے ایسے مقابلوں کے دوران 477 ملزمان کو زخمی حالت میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ڈیوٹی پر موجود عملے کی توجہ کا فقدان

ایک سینئر پولیس افسر سے جب ڈان نے پوچھا کہ میٹرو پولیس میں ڈکیتیوں کے دوران قتل کی وارداتوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پرتشدد جرائم کے واقعات واضح طور پر پھیلے ہوئے شہر میں بے قابو امن و امان کے عمومی رجحان کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور عید کی چھٹیوں جیسے خصوصی تقریبات کی آمد پر یہ صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیر مؤثر واچ اینڈ وارڈ، فیلڈ اسٹاف کی توجہ کا فقدان، فوجداری نظام انصاف میں دائمی فالٹ لائنز، تبادلوں/تعیناتیوں میں سیاسی مداخلت اور نوجوانوں میں منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال وہ عوامل ہیں جو اس سلسلے میں معاون ثابت ہوئے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ پولیس اس لعنت پر کیسے قابو پا سکتی ہے تو ایس ایس پی جنوبی اسد رضا نے کہا کہ جرائم کی مؤثر روک تھام، انٹری اور ایگزٹ کنٹرول اور انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز کے لیے پولیس کا بہتر گشت اس رجحان کو مؤثر طریقے سے روک سکتا ہے۔

ہجوم کی جانب سے اپنے دفاع میں اسٹریٹ کرائم میں ملوث افراد کے قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر سینئر پولیس افسر نے کہا کہ مشتعل ہجوم کی جانب سے ازخود انصاف کرنا اورنگی ٹاؤن یا کورنگی جیسے جرائم کے گڑھ جیسے علاقوں میں لوگوں کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے، ایسے حالات میں پولیس کا غیر ذمہ دارانہ رویہ قابل مذمت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو اپنے دفاع میں گولی چلانے کا حق ہے لیکن اس سلسلے میں کسی باضابطہ قانون کے بجائے کبھی کبھار اس کے استعمال کا حق ہونا چاہیے کیونکہ ایسا قانون بننے کے نتائج معاشرے کے لیے تباہ کن ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں