’ساہیوال کا سینٹ پیٹرک چرچ تاریخی فن تعمیر کا شاہکار ہے‘

26 جولائ 2023
یہ عبادت گاہ پہلی نظر میں ہی مقامی لوگوں کے دل و دماغ کو اپنی جانب راغب کرلیتی ہے—تصویر: لکھاری
یہ عبادت گاہ پہلی نظر میں ہی مقامی لوگوں کے دل و دماغ کو اپنی جانب راغب کرلیتی ہے—تصویر: لکھاری

ساہیوال کی ہل چل سے بھری گلیوں کے درمیان سینٹ پیٹرک چرچ کی صورت میں شان دار عمارت واقع ہے جو یورپی تعمیراتی اثرات اور مقامی فن کے امتزاج کو ظاہر کرتی ہے۔

اس کا نیو گوتھک آرکیٹیکچرل انداز، محرابیں، بلند و بالا اسپائرز اور دیگر باریکیاں آپ کو ماضی کی شان و شوکت میں لے جاتے ہیں۔

یہ عمارت نہ صرف نوآبادیاتی دور کی گواہی دیتی ہے بلکہ یہ بے پناہ روحانی اہمیت کی حامل بھی ہے۔ یہ عبادت گاہ پہلی نظر میں ہی مقامی لوگوں اور سیاحوں کے دل و دماغ کو اپنی جانب راغب کرلیتی ہے۔

سینٹ پیٹرک چرچ نہ صرف شہر کے سب سے بڑے گرجا گھروں میں سے ایک ہے بلکہ اس کا فن تعمیر کافی منفرد ہے اور یہ ایک بھرپور تاریخی پس منظر بھی رکھتا ہے۔

نوٓابادیاتی دور میں انڈین سول سروس کے آفسر رہنے والے رابرٹ ڈوگل تھامسن کی یاد میں سینٹ پیٹرک چرچ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ چرچ کا نام پانچویں صدی کے مشہور آئرش مشنری سینٹ پیٹرک کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس چرچ کی تعمیر 1883ء میں مکمل ہوئی تھی۔ ابتدائی طور پر اس چرچ نے ایک چیپل کا کام کیا جہاں صرف برطانوی افسران عبادت کی غرض سے جاتے تھے۔

سینٹ پیٹرک چرچ کے پریسنکٹ انچارج برقیل طالب کہتے ہیں کہ ’1986ء میں، لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے سینٹ پیٹرک چرچ کی توسیع عمل میں آئی۔ اس وقت تقریباً 50 خاندان چرچ کے ممبر تھے اور باقاعدگی سے اتوار کو عبادت میں شرکت کرتے تھے‘۔

کئی لوگوں کو خدشہ تھا کہ توسیع کا منصوبہ چرچ کی تعمیراتی وحدت کو متاثر کرسکتا ہے۔ تاہم، جب یہ منصوبہ مکمل ہوگیا تو یہ خدشات بھی دور ہوگئے۔ یہ گرجا گھر اب 21 ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔

سینٹ پیٹرک چرچ کی عمارت کا فضائی نظارہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ تاریخی عمارت ایک صلیب کی شکل میں بنائی گئی ہے جو چرچ کی اقدار کی نشان دہی کرتی ہے۔ یہ چرچ سرخ اینٹوں سے بنے شان دار بیرونی حصے اور ایک مثلث نما چھت کے لیے جانا جاتا ہے جو نوآبادیاتی تعمیراتی انداز کی خوبصورتی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سینٹ پیٹرک چرچ ساہیوال میں ایک مقبول مقام ہے۔

چرچ کے اندر قدم رکھتے ہی خاموشی اور سکون آپ کا استقبال کرتے ہیں، سورج کی شعاعیں شیشے کی رنگین کھڑکیوں سے اندر داخل ہوتی ہیں اور یہاں رنگ بکھیر دیتی ہیں۔ مذہبی نظموں اور دعاؤں کی گونج بیرونی دنیا سے الگ ایک پرسکون ماحول فراہم کرتی ہے جو زائرین کو اندرونی سکون اطمینان مہیا کرتی ہیں۔ عبادت گزاروں کی ایک سے زائد نسلوں نے اس گرجا گھر میں عبادت کی ہے۔

چرچ کی تاریخ

اس بات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ جس وقت چرچ کی تعمیر شروع ہوئی تھی اس وقت اس علاقے میں کوئی شہر آباد نہیں تھا۔ چرچ کے آس پاس شہر آباد ہوا۔ 1864ء میں لاہور اور ملتان جیسے دو بڑے شہروں کو ملانے کی اہمیت کے پیش نظر ایک نیا شہر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جبکہ سینٹ پیٹرک چرچ کو اس نئے شہر کے حصے کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔

یہ نیا شہر اس وقت منٹگمری کہلاتا تھا۔ اس کا نام سر رابرٹ منٹگمری کے نام پر رکھا گیا تھا جنہوں نے برطانیہ کے زیرِ تسلط ہندوستان میں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دی تھیں۔ 1865ء میں منٹگمری کے دور میں شہر کا قیام عمل میں آیا۔ بعدازاں 1867ء میں، منٹگمری کو باضابطہ طور پر ایک میونسپلٹی قرار دیا گیا۔

سینٹ پیٹرک چرچ میں لارڈ برکلے اور اس کے دو ساتھیوں کی قبریں بھی موجود ہیں جنہیں 1857ء کی جنگِ آزادی یا (انگریزوں کے مطابق) ’بغاوت‘ کے دوران قابل ذکر تاریخی شخصیات میں شمار کیا جاتا تھا۔ لارڈ برکلے کی قبر کندہ کاری سے مزین کیا گیا ہے جس پر کنندہ تحریر 1857ء میں نوآبادیاتی انتظامیہ اور مقامی آبادی کے درمیان اقتدار کی کشمکش کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

قبر پر درج ہے کہ حکومت پنجاب کی طرف سے، ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر لیوپولڈ اولیور فٹز ہارڈنگ برکلے کی یاد میں جو 21 ستمبر 1857ء کو گوگیرا ضلع کے نور شاہ مقام کے قریب ریاست کے دشمنوں کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے 27 سال کی عمر میں مارے گئے تھے۔

لیکن یہ تو صرف وہ تاریخ ہے جو اس وقت کے فاتحین نے لکھی تھی۔ مقامی نقطہ نظر یقینی طور پر اس سے مختلف ہے۔

گورنمنٹ کالج، ساہیوال میں تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد عمران بتاتے ہیں کہ ’لارڈ برکلے نے گوگیرا کے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ 19ویں صدی میں گوگیرا ایک اہم شہر تھا جو ضلعی ہیڈ کوارٹر کے طور پر کام کرتا تھا۔

’1857ء کی جنگ آزادی کے تاریخی واقعات کے دوران بنیادی طور پر اس خطے میں کھرل برادری کے ارتکاز کی وجہ سے گوگیرہ ایک مرکز کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ ایک ممتاز شخصیت رائے احمد کھرل، مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو برطانوی راج کے خلاف متحد کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس تحریک نے مقامی فوجیوں کو برطانوی فوج سے مستعفی ہوکر رائے احمد کھرل کے مقصد میں شامل ہوتے دیکھا گیا‘۔

   لارڈ برکلے کی یاد میں نصب صلیب— تصویر: فیس بک
لارڈ برکلے کی یاد میں نصب صلیب— تصویر: فیس بک

محمد عمران بتاتے ہیں کہ ’تاہم، یہ بات قابل غور ہے کہ ہر کسی نے بغاوت کی تحریک میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ مثال کے طور پر کمالیہ کے سرفراز خان کھرل نے برطانوی راج کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ بدلتے ہوئے حالات و واقعات میں، یہ سرفراز خان کھرل کی دھوکہ دہی تھی جس کی وجہ سے بالآخر لارڈ برکلے کے ہاتھوں رائے احمد کرل شہید ہوئے‘۔

محمد عمران مزید بتاتے ہیں کہ ’اسی تحریک کے دوران، آزادی پسندوں کے ایک گروپ نے انتقامی کارروائی کی جس کے نتیجے میں لارڈ برکلے اور ان کے کئی ساتھیوں کو قتل کردیا گیا۔ ان کی موت کے بعد برطانوی راج نے لارڈ برکلے اور ان کے ساتھیوں کی تدفین کے لیے دو ایکڑ اراضی مختص کی (یہ زمین اب سینٹ پیٹرک چرچ کے علاقے میں شامل ہے)۔ قبروں کی دیکھ بھال کے لیے ایک نگران مقرر کیا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے‘۔

سینٹ پیٹرک چرچ میں لارڈ برکلے کی قبر نوآبادیاتی دور کے منتظم کی واحد نشانی ہے لیکن زیادہ تر مقامی لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ کون تھا یا اس نے تحریک آزادی کو دبانے میں کیا کردار ادا کیا تھا۔

ثقافتی مرکز

مذہبی اہمیت کے علاوہ سینٹ پیٹرک چرچ ساہیوال کے ثقافتی ورثے کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ چرچ میں سال بھر مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ یہ چرچ متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرتا ہے اور برادری اور تعلق کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔

چمکتی دمکتی روشنیوں سے مزین کرسمس کے تہوار کی میزبانی سے لے کر خوشیوں سے بھری ایسٹر کی تقریبات تک یہ چرچ امید کی کرن بنتا ہے اور ساہیوال شہر میں موجود بھرپور ثقافتی منظرنامے کی یاددہانی کرواتا ہے۔

چرچ کا ایک اور منظر— تصویر: فیس بک
چرچ کا ایک اور منظر— تصویر: فیس بک

سینٹ پیٹرک ہائی اسکول کی پرنسپل مسز نگہت نعیم کا سینٹ پیٹرک چرچ سے گہرا تعلق ہے اور وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ یہ صرف شہر میں بسنے والی مسیحی برادری کی عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ مذہبی ہم آہنگی اور تنوع کی علامت بھی ہے۔ وہ اسکول میں مسلم عملے اور طلبہ کی موجودگی کا ذکر کرتی ہیں جو مختلف مذہبی عقائد کے لیے اشتراک اور احترام کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ مسلم خاندانوں کی طرف سے اسکول پر کیا جانے والا اعتماد، ادارے میں موجود مثبت اور جامع ماحول کا ثبوت ہے۔ سینٹ پیٹرک ہائی اسکول میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور عملے کا موجود ہونا، رواداری اور باہمی احترام کی بہترین مثال ہے۔

ساہیوال میں سینٹ پیٹرک چرچ اور اس کے تاریخی فن تعمیر، روحانیت اور ثقافتی ورثے کی خوبصورتی کا ایک شاندار ثبوت ہے۔ یہ واقعی ایک خوبصورت اور زندہ دل شہر کی علامت ہے۔


یہ مضمون 25 جون 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں