نامور ماہر گائناکالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر بلقیس ملک 92 برس کی عمر میں لاڑکانہ میں انتقال کر گئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کے ساتھی ڈاکٹر جان محمد شیخ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر بلقیس ’اساتذہ کی استاد‘ تھیں۔

بلقیس ملک نے لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل کالج کے شعبہ زچگی اور گائناکالوجی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں۔

ڈاکٹر جان محمد شیخ کا کہنا تھا کہ لاڑکانہ کی آبادی قبل از پیدائش سے متعلق مسائل اور دیکھ بھال کے حوالے سے لاعلم تھی۔

ڈاکٹر بلقیس ملک 20 فروری 1929 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، ان کا تعلق سیالکوٹ کے ایک معزز گھرانے سے تھا، انہوں نے 1958 میں کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی، بعدازاں وہ ایف سی پی ایس مکمل کرکے رائل میڈیکل کالج لندن گئی اور وہیں پر ایف آر سی ایس کیا۔

بعدازاں وہ ایڈوانس کورسز کے لیے امریکا چلی گئیں اور جب 1972 میں پاکستان واپس آئیں تو پشاور میں ہیلتھ منصوبے کی سربراہی کی، اسی دوران ان کی اسلام آباد میں اپنی ساتھی ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی سے ملاقات ہوئی، جو بمبئی یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی پوزیشن ہولڈر تھیں۔

ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی پیپلز پارٹی سے وابستہ تھیں اور اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قریبی ساتھیوں میں سے تھیں، انہوں نے قمبر واڑہ سے الیکشن لڑا تھا اور بعد ازاں انہیں قومی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر بنا دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر بلقیس ملک نے ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی کے ذریعے ذولفقار علی بھٹو سے ملاقات کی، ملاقات کے دوران ذولفقار علی بھٹو نے بالائی سندھ میں میڈیکل کالج قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، انہوں نے پروفیسر بلقیس سے کہا کہ وہ شعبہ گائناکالوجی کی قیادت کریں۔

جب ڈاکٹر بلقیس نے شعبہ گائناکالوجی کا چارج سنبھالا تو اسپتال صرف 4 بستروں پر مشتمل تھا، ان کی لگن اور عزم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ زیادہ تر وارڈ کی ایک میز پر سوتی تھیں۔

21 اپریل 1973 کو لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج قائم ہوا تو اُس وقت کے وزیراعلیٰ غلام مصطفی جتوئی نے سندھ کے وزیر صحت عبدالوحید کٹپر کے ساتھ مل کر اس کا افتتاح کیا۔

چانڈکا میڈیکل کالج کے قیام کے فوراً بعد ذولفقار علی بھٹو لاڑکانہ آئے اور ان سے رحیم یار خان اور لاڑکانہ میں اسپتالوں کے قیام کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔

ڈ ناکٹر بلقیس نے متحدہ عرب امارات کے اس وقت کے حکمران شیخ زید بن سلطان النہیان کو لاڑکانہ میں اس منصوبے کے بارے میں آگاہ کیا، اس دوران ذولفقار علی بھٹو بھی موجود تھے۔

ڈاکٹر بلقیس ملک کو اس منصوبے کا انچارج تعینات کردیا گیا، وہ پورے جذبے کے ساتھ اس منصوبے کی نگرانی کرتی رہیں، وہ شعبہ گائنوکالوجی اور زچگی کے شعبے کی بھی سربراہ رہیں۔

ڈاکٹر بلقیس ملک نے اپنی پوری زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی اور کبھی اپنے آبائی شہر واپس نہیں گئی۔

سماجی کارکن اور دانشور ذوالفقار قادری نے کہا کہ جنرل ضیاء کے دور میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ایک بار سکھر کی سینٹرل جیل میں بیمار ہوئیں تو انہوں نے جیل کے میڈیکل افسر سے دوائی لینے سے انکار کردیاتھا، بےنظیر صرف پروفیسر ڈاکٹر بلقیس ملک کی تجویز کردہ ادویات لیتیں اور انہی سے اپنا چیک اپ کرواتی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں