صرف مذہبی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ شاید عوام نے ملکی حالات سے راہِ فرار تلاش کرنے کے لیے بھی عید کی خوشیاں زور و شور سے منائیں۔ عید کے تہوار پر پاکستانی عوام نے تمام مایوس کُن عناصر کو نظرانداز کرتے ہوئے خوشیاں منانے کے لیے اپنے بجٹ کو ہرممکن حد تک بڑھانے کی کوشش کی۔

بہت سے تجزیہ کار معاشی صورتحال کو تاریخی اعتبار سے بدترین نہیں تو بے یقینی ضرور قرار دیتے ہیں۔ ہماری معیشت سُست روی کا شکار ہے (شرح نمو 0.3 فیصد)، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے (38 فیصد) اور روپے کی قدر تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے (جون کے مہینے میں اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر 300 روپے سے زائد میں فروخت ہورہا تھا)۔ معاشی تباہی کے باعث ہونے والے نقصانات کی فہرست انتہائی طویل ہے۔ سیاسی محاذ پر صورت حال پیچیدہ ہے جو نئی قیاس آرائیوں کو جنم دے رہی ہے۔

پاکستانی عوام نے پھر بھی خود کو قسمت کے بھروسے نہیں چھوڑا اور ایسا وہ کر بھی نہیں سکتے ہیں۔ چاہے وہ سنگین معاشی مسائل سے پوری طرح واقف نہ ہوں لیکن وہ اپنے گھرانوں پر پڑنے والے اثرات سے پوری طرح واقف ہیں۔ انہوں نے ان حالات میں خود کو ڈھالنے کی پوری کوشش کی ہے۔

گزشتہ ہفتے عیدالاضحٰی کے تہوار نے بھی عوام کے مثبت عملی رویے کی بھرپور عکاسی کی۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی بڑی تعداد نے اس بار عید پر اپنے گائے بکرے خریدنے کی خواہش کو دبا دیا اور اجتماعی قربانی میں حصہ لیا جہاں زیادہ سے زیادہ 7 خاندان اپنے بجٹ کے حساب سے گائے کی اجتماعی قربانی میں حصہ لے سکتے ہیں۔

وارثی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی زیر سرپرستی چلنے والی ایک خیراتی تنظیم کی جانب سے قربانی کے کاموں کی نگرانی کرتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ ’قربانی کی اخراجات صرف مویشیوں کی قیمت تک ہی محدود نہیں ہیں جوکہ مانگ میں کمی کی وجہ سے 10 سے 15 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ یہ قیمتیں مہنگائی کی تقریباً نصف سطح تک پہنچ چکی ہیں۔ ان مجموعی اخراجات میں مویشیوں کو منتقل کرنے کے اخراجات، ان کی حفاظت کے انتظامات، خریداری سے لے کر قربانی کرنے تک چارے کے اخراجات، قصائی اور صفائی کے اخراجات بھی شامل ہیں۔

’صرف اندازے کے لیے بتاؤں تو کراچی میں مویشیوں کو منڈی سے گھر لانے میں ٹرانسپورٹ کی لاگت اوسطاً دگنی ہوچکی ہے (پہلے قیمت 2 ہزار تھی، اب 4 ہزار روپے ہوچکی ہے)۔ چھوٹے جانور کا چارہ جو پہلے 150 روپے میں دستیاب تھا اب 250 روپےتک پہنچ چکا ہے جبکہ بڑے جانور کے چارے کی قیمت بھی 250 روپے سے 400 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ حتیٰ کہ موسمی قصائی بھی بکرا ذبح کرنے کے لیے 6 ہزار روپے مانگ رہے ہیں‘۔

مویشی ٹرانسپورٹ کی قیمت دوگنی ہوچکی ہے
مویشی ٹرانسپورٹ کی قیمت دوگنی ہوچکی ہے

لوگوں نے اس سال بجٹ کم کرتے ہوئے صرف بچوں کے لیے ہی عید کی خریداری کی۔ یہی وجہ تھی کہ اس بار بازاروں اور شاپنگ مالز میں لوگوں کی تعداد پہلے کی نسبت کم دیکھنے میں آئی۔

اس طرح عید پر کچھ کاروبار تو ہوا لیکن پھر بھی بیوپاریوں کا کہنا تھا کہ اس سال انہیں منافع زیادہ نہیں ہوا کیونکہ وہ منہ مانگی قیمت وصول کرنے میں ناکام رہے۔ درحقیقت معیشت کی سست روی کے باوجود رواں سال عیدالفطر کے مقابلے میں عیدالاضحیٰ پر مارکیٹ کا سکراؤ کم رہا۔

عیدالفطر میں تقریباً 40 فیصد کمی کے مقابلے میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر مارکیٹ کے اخراجات میں 25 فیصد تک کمی کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ اگر پچھلے سال کے 150 ارب روپے کے تخمینے کو درست مان لیا جائے تو اس سال مارکیٹ سکڑ کر 118 ارب روپے رہ گئی۔

ہمیشہ سے ہی عیدالاضحیٰ کے موقع پر شہری علاقوں سے دیہی علاقوں کو رقم کی منتقلی ہوتی ہے۔ عیدالفطر کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ خرچ کیے گئے 118 ارب روپے میں سے 80 فیصد سے زائد رقم بیوپاریوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔

حنیف نامی بیوپاری نے بتایا کہ ’کراچی کی مرکزی منڈیاں عید سے دو دن پہلے تک ویران تھیں۔ اس کے پیچھے بہت سی وجوہات تھیں جن میں انتظامات کے اخراجات اور ممکنہ بارشوں کے باعث صحت کے خطرات شامل تھے‘۔

الیکٹرانک میڈیا کی خبروں اور سوشل میڈیا پر ریلز یا ویڈیوز سے ناظرین کو یہ گمان ہوتا ہے کہ منڈی میں کاروبار کم ہونے کے دعوے بالکل غلط ہیں۔ لیکن حقیقت میں بہت سے لوگ معاشی وجوہات کی بنا پر بغیر جانور لیے منڈی سے واپس چلے گئے۔

مٹھی بھر لوگوں کی جانب سے خوبصورت جانوروں کی اچھے داموں پر خریداری سے ان لاکھوں افراد کی تلافی نہیں ہوتی جو اس سال مویشی منڈی سے خالی ہاتھ واپس لوٹے ہیں۔

چونکہ عید الاضحیٰ پر زیادہ تر لین دین کیش کی صورت میں کیا جاتا ہے اس لیے مارکیٹ میں ہونے والے کاروبار کے حجم کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تخمینہ ان اندازوں پر مبنی ہے جو مختلف ذرائع کے اکاؤنٹس ڈیٹا جیسے رقم نکالنے اور ترسیلاتِ زر کی بینک رپورٹس، ایکسچیج کمپنیوں میں رقوم کی غیررسمی منتقلی، فعال فلاحی ادارے اور حکومت کی زیرِ نگرانی مویشی منڈیوں میں مویشیوں کی تعداد اور قربانی کے جانوروں کی اوسط قیمتوں سے لگایا جاتا ہے۔

مویشی پالنے اور ان کے کاروبار سے منسلک متعدد ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اس سال اجتماعی قربانی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس بار دنبوں اور بکروں کے مقابلے میں گائے کی قیمت میں نسبتاً اضافہ دیکھا گیا۔

اس سال اجتماعی قربانی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا
اس سال اجتماعی قربانی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا

متعدد وجوہات کی بنا پر مویشیوں کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ دیگر شہروں کے مقابلے میں کراچی میں مویشیوں کی قیمتیں زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں۔ لاہور میں مقیم بیوپاری اسلم بتاتے ہیں کہ ’سرحد پار سے جانوروں کی آمد کے باعث پنجاب کے بڑے شہروں میں گائے کی قیمت 10 فیصد تک کم ہے‘۔

چمڑے کی مصنوعات کے معروف برآمد کنندہ شجاعت علی نے عید کے موقع پر قیمتی کھالوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔ ’کھالوں کی کم طلب کے باعث سال 2021ء کے مقابلے میں گزشہ سال کھالوں کی قیمتوں میں دو تہائی کمی ریکارڈ کی گئی۔ لیکن اب جوتوں کی صنعت کی بحالی کے ساتھ ہی چمڑے کی طلب میں اضافہ ہوا ہے‘۔ وہ امید کرتے ہیں کہ چمڑے کی گزشتہ قیمتوں کو بحال کیا جائے گا لیکن کھالوں کو جمع کرنے اور محفوظ کرنے کے منتظم نظام کی عدم موجودگی کے باعث کھالیں خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

غیرقانونی اور دہشتگرد تنظیموں کو کھالوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو روکنے کے لیے حکومت نے چندہ اکٹھا کرنے والی تنظیموں کی جانب سے کھالیں جمع کرنے پر پابندی عائد کردی۔ اس سے سیاسی جماعتوں کے فلاحی اداروں کی جانب سے کھالیں جمع کرنے میں کمی آئی ہے لیکن اس طرح کھالوں کو محفوظ رکھنے کے لیے متبادل انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ٹینریز اور چمڑے کی صنعت میں استعمال ہونے والے قیمتی خام مال کے ضیاع کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

شجاعت علی نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر حکومت پرانے نظام کی جگہ کھالیں جمع کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کا زیادہ موثر نظام لاتی ہے تو ہم اس اقدام کو سراہیں گے۔ افسوس کی بات ہے کہ خدمتِ خلق فاؤنڈیشن، محسن انسانیت ایسوسی ایشن، الخدمت فاؤنڈیشن سمیت سیاسی جماعتوں کے تمام خیراتی ونگز کی جانب سے کھالیں جمع نہ کرنے کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جس نے چمڑے کی مقامی سپلائی چین کو درہم برہم کردیا ہے‘۔


یہ مضمون 3 جولائی 2023ء کو بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں