فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل آئین اور قانون کے مطابق ہے، سپریم کورٹ میں حکومتی جواب

اپ ڈیٹ 17 جولائ 2023
سپریم کورٹ میں 18 جولائی کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواست پر سماعت ہوگی — فائل/فوٹو: ڈان
سپریم کورٹ میں 18 جولائی کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواست پر سماعت ہوگی — فائل/فوٹو: ڈان

وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کو آئین اور قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی۔

وفاقی حکومت نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے توسط سے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا جہاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کل (18 جولائی) ہوگی۔

مذکورہ درخواستیں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن، کامران علی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دائر کی تھیں اور گزشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ 9 مئی کے واقعات پر 102 لوگوں کو ملک کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت فوج کی حراست میں ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے 27 جون کو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی یقین دہانی پر فوجی عدالتوں میں کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی تھی اور سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت میں ریمارکس دیے تھے کہ توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔

آج حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات احتجاج اور اچانک نہیں ہوئے تھے بلکہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی کارروائیاں تھیں، تاکہ ملک کی مسلح افواج کو بدنام کیا جائے اور ملک کی اندرونی سلامتی خطرے میں ڈالی جائے۔

بیان میں کہا گیا کہ ان واقعات سے 2 ارب 53 کروڑ 91 لاکھ 90 ہزار روپے کا نقصان پہنچا، جس میں ایک ارب 98 کروڑ 29 لاکھ 50 ہزار کا فوجی تنصیبات، آلات اور گاڑیوں کا نقصان بھی شامل ہے۔

عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ملزمان کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گیے ہیں جن میں آرمی ایکٹ کو شامل نہیں کیا گیا جو کہ سپریم کورٹ نے اس سے قبل کہا تھا کہ ایف آئی آر کا متن اور قانون نکات جرم کی نوعیت کا تعین ہی کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ درحقیقت آفیشل سیکریٹ ایکٹ، 1952 کے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت 1923 ٹرائبل ایکٹ کے زمرے میں آنے والے جرائم کی 9 مئی کے واقعات کے خلاف درج چند مقدمات میں نشان دہی نہیں کی گئی اور آرمی ایکٹ مذکورہ ایف آئی آرز کے متن پر لاگو نہیں ہوتا۔

وفاقی حکومت نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت اس کے دائرہ کار میں نہیں اور قابل سماعت نہیں ہیں اور تاحال کسی نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔

جواب میں کہا گیا کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل آئین اور قانون کے مطابق ہے، ‏فوجی اور دفاعی تنصیبات اور اداروں پر حملہ پاکستان کی قومی سلامتی پر براہ راست حملہ ہے۔

سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ آئینِ پاکستان قومی سلامتی پر حملوں کے مرتکب افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کی اجازت دیتا ہے، ایسے حملے روکنے کے لیے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی ضروری ہے۔

عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے جواب میں بتایا گیا کہ ‏شکیل آفریدی اور کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ غیر ملکی طاقتیں مسلح افواج کو غیر مستحکم کرنے اور ہماری قومی سلامتی کو کمزور کرنے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہیں۔

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہےکہ فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ براہ راست اس کیس کو نہ سنے، اگر سپریم کورٹ نے درخواستیں خارج کر دیں تو متاثرہ فریقین کا ہائی کورٹ میں حق متاثر ہوگا۔

دوسری جانب فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواست کے معاملے پر سپریم کورٹ نے صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کی درخواست قابل سماعت قرار دے دی اور رجسٹرار آفس نے نمبر الاٹ کر دیا۔

سپریم کورٹ کا 6 رکنی لارجر بینچ کل درخواستوں پر سماعت کرے گا، چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہوں گے۔

درخواستوں کا متن

واضح رہے کہ 21 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

20 جون کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے توسط سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔

اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔

اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں