بھوک کے شکار ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان کا 99 واں نمبر

اپ ڈیٹ 26 جولائ 2023
26.1 کے اسکور کے حساب سے پاکستان میں بھوک کی سطح بہت سنگین ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
26.1 کے اسکور کے حساب سے پاکستان میں بھوک کی سطح بہت سنگین ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

دنیا بھر میں بھوک کا شکار ممالک کی عالمی درجہ بندی گلوبل ہنگر انڈیکس-2022 میں پاکستان 121 ممالک میں 99 نمبر پر آگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس عالمی فہرست کے پاکستان چیپٹر کا اجرا گزشتہ روز اسلام آباد میں کیا گیا، اس فہرست میں پاکستان کا اسکور 2006 میں 38.1 تھا جوکہ اب کم ہو کر 2022 میں 26.1 پر آگیا، تاہم اس کے باوجود بھوک کے شکار ممالک کی فہرست میں اس سطح کو سنگین سمجھا جاتا ہے، صفر اسکور یہ ظاہر کرتا ہے کہ کسی ملک میں بھوک کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’گلوبل ہنگر انڈیکس کے موجودہ ایڈیشن سے پتا چلتا ہے کہ مسلح تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور کورونا وائرس جیسے عوامل ایک دوسرے کی شدت میں اضافہ کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں لگ بھگ 82 کروڑ 80 لوگ بھوکے رہنے پر مجبور ہوئے۔

بیان میں کہا گیا کہ ان حالات کے پیش نظر 46 ممالک 2030 تک بھوک کے مسئلے کو مکمل طور پر ختم نہیں کر پائیں گے بلکہ اس فہرست کی نچلی سطح تک بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔

بیان میں مزید بتایا گیا کہ افریقہ میں صحارا کے جنوب اور جنوبی ایشیا کو بدستور ان خطوں میں شمار کیا گیا جہاں بھوک کی شرح سب سے زیادہ ہے، جنوبی ایشیا میں بھوک کی سطح سب سے زیادہ ہے، علاوہ ازیں یہاں بچوں کی صحیح نشوونما نہ ہونے (اسٹنٹنگ) کی شرح اور بچوں کے ضائع ہونے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔

تازہ ترین گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان 121 ممالک میں 99 ویں نمبر پر ہے، 26.1 کے اسکور کے حساب سے پاکستان میں بھوک کی سطح بہت سنگین ہے۔

خیال رہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس ایک سالانہ رپورٹ ہے جوکہ مشترکہ طور پر ’ویلٹ ہنگر لائف‘ اور ’کنسرن ورلڈ وائڈ‘کی جانب سے شائع کی گئی ہے جس کا مقصد بھوک کے خلاف جدوجہد کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔

’ویلٹ ہنگر لائف‘ کی کنٹری ڈائریکٹر عائشہ جمشید نے کہا کہ ان کی تنظیم نے خوراک سے محروم کمیونٹیز کی مدد اور سول سوسائٹی، حکومت اور نجی شعبے کے تعاون سے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کام کیا۔

’لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب‘ کے ڈائریکٹر شفاعت علی نے خوراک کی تقسیم کے نظام کے حوالے سے شہریوں کی شمولیت، عمل، نگرانی، اور مقامی تناظر پر غور جیسے معاملات پر روشنی ڈالی۔

اس بات پر زور دیا گیا کہ گورننس کی ہر سطح پر اسٹیک ہولڈرز کو مقامی لوگوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے، کمیونٹیز، سول سوسائٹی، کسان اور مقامی سطح پر پیداوار کرنے والوں کو یہ سکھایا جانا چاہیے کہ وہ اپنے مقامی علم اور زندگی کے تجربات کو غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں