نگران وزیر اعلیٰ سندھ کی صوبے میں انسداد ملیریا مہم شروع کرنے کی ہدایت

27 اگست 2023
اس ماہ صوبے میں 64 ہزار 519 مریضوں میں ملیریا کی تصدیق ہوئی— فوٹو: ڈان
اس ماہ صوبے میں 64 ہزار 519 مریضوں میں ملیریا کی تصدیق ہوئی— فوٹو: ڈان

نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے صوبے میں ملیریا کے بڑھتے ہوئے کیسز کا نوٹس لیتے ہوئے وبا کو روکنے کے لیے مہم شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔

صوبے میں اس ماہ ہر ڈویژن بالخصوص زیریں سندھ میں ملیریا کے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھی جا رہی ہے جس کی وجہ سے وزیر صحت نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ مچھروں سے پھیلنے والی بیماری سے نمٹنے کے لیے صوبے کے لیے مخصوص ایکشن پلان تیار کریں اور ان کے لیے الگ وارڈز قائم کریں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس ماہ صوبے میں صحت کی سہولیات میں تیز بخار کا شکار مریضوں کے 2 لاکھ 86ہزار 317 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

ان میں سے 64 ہزار 519 مریضوں میں ملیریا کی تصدیق ہوئی جو گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 31 فیصد زیادہ ہے جس میں 49 ہزار 112 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

صوبائی ڈائریکٹر جنرل صحت ڈاکٹر ارشاد میمن نے ملیریا کے کیسز میں اضافے کی وجہ کچھ اضلاع میں کھڑے سیلابی پانی اور باقی صوبے میں صفائی کی خراب صورتحال کو قرار دیا۔

نگران وزیر اعلیٰ کے ترجمان عبدالرشید چنہ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے ملیریا کے کیسز کی تعداد کو ایک ہفتے کے اندر اندر قابو میں لانے کا حکم دیا ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کہا کہ حیدرآباد، میرپورخاص، لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں کیسز میں اضافہ ہوا ہے اور ان ڈویژنوں کے محکمہ صحت اور محکمہ داخلہ کو انفیکشن کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

نگران وزیر اعلیٰ نے محکمہ صحت کو انسداد ملیریا مہم شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے یہ بھی ہدایت کی کہ تمام سرکاری ہسپتالوں میں ملیریا وارڈز اور متعلقہ ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے انتظامات کیے جائیں۔

انہوں نے محکمہ داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ مختلف علاقوں میں مچھر مار اسپرے مہم چلائیں جبکہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو حفظان صحت کا معیار بہتر بنانے کا کہا گیا ہے۔

کیسز کی تعداد

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ 31ہزار 891 کیسز حیدرآباد ڈویژن میں رپورٹ ہوئے، اس کے بعد میرپورخاص ڈویژن میں 18ہزار 553، لاڑکانہ ڈویژن میں 8ہزار 476، سکھر ڈویژن میں 2 ہزار 595، شہید بینظیر آباد میں 2 ہزار 530 اور کراچی ڈویژن میں 474 کیسز رپورٹ ہوئے۔

سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں ٹھٹھہ سرفہرست ہے جہاں 10ہزار 182 کیسز رپورٹ ہوئے، اس کے بعد میرپورخاص میں 9ہزار 621، عمرکوٹ میں 6ہزار 195، حیدرآباد میں 5ہزار 531، لاڑکانہ میں 4ہزار 512، دادو میں 3ہزار 188، شکارپور میں دو ہزار، جامشورو میں 2ہزار 242، بدین میں 4ہزار 399، سجاول میں 2ہزار 681، ٹنڈو الہ یار ایک ہزار 202 اور تھرپارکر میں 2 ہزار 737 کیسز رپورٹ ہوئے۔

سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ مہینوں میں ملیریا کے کیسز میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور صوبے میں جنوری سے اگست تک ملیریا کے 2لاکھ 47 ہزار 799 کیسز رپورٹ ہوئے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں سب سے زیادہ ضلع ملیر متاثر ہوا اور اس ماہ ملیریا کے 474 کیسز رپورٹ ہوئے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے شہر کے مختلف حصوں میں فرائض انجام دینے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار اصل صورتحال کو واضح کرنے سے قاصر ہیں اور اندرون سندھ کے مقابلے میں کیسز کی تعداد کم ہونے کے بجائے کراچی میں کیسز کی اصل تعداد بہت زیادہ ہے۔

سینئر جنرل فزیشنز ڈاکٹر الطاف حسین کھتری کراچی بھر میں ملیریا کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ سرکاری اعدادوشمار اصل صورتحال کی منظرکشی کرتے ہیں، اس ماہ کے آغاز سے روزانہ میں ملیریا کے کم از کم تین سے چار مریضوں کا معائنہ کر رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک کلینک کی بات ہے، کوئی بھی یہ فرض کر سکتا ہے کہ شہر کے دیگر حصوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔

پی ایم اے سینٹر اور کراچی میں مقیم سینئر جنرل فزیشن کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے ان کی رائے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اکثر مریض مالی مجبوریوں کی وجہ سے لیبارٹری سے ٹیسٹ نہیں کراتے۔

ڈاکٹر عبدالغفور نے کہا کہ حالیہ مہنگائی نے غریب لوگوں کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے، ان میں سے بہت سے لوگ لیبارٹری میں ٹیسٹ کرانے کے بجائے عارضی تشخیص اور دوا پر پیسہ خرچ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملیریا اور دیگر انفیکشنز جیسے کہ ٹائیفائیڈ کے حوالے سے صورتحال صوبے کے اندرونی حصوں بالخصوص زیریں سندھ بالخصوص کیٹی بندر میں زیادہ سنگین ہے جہاں لوگ انتہائی ابتر حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں صحت عامہ کی صورتحال تشویشناک ہے جہاں سیلابی پانی اب بھی کھڑا ہے اور ڈاکٹر اکثر ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے کیسز رپورٹ کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں