6 ستمبر کی رات لاکھوں افراد نے جاگ کر گزاری۔ وہ سڑکوں پر تھے، پُرجوش اور منتظر۔ ایک ایسی فلم کے لیے جس نے ان کی آنکھوں سے نیند چھین لی تھی۔ بولی وڈ کی تاریخ میں پہلی بار کسی فلم کی ریلیز کے موقع پر صبح 6 بجے کے شوز کا اہتمام کیا گیا۔ ایسا چلن تو اس سے پہلے فقط ساؤتھ انڈین سرکٹس ہی میں دیکھا گیا تھا۔

7 ستمبر کی صبح ’جوان‘ کے نام تھی۔ کنگ خان اور تامل سنیما کے معروف ہدایت کار، ایٹلی کمار کی لگ بھگ 300 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والی فلم ایک دھماکے دار آغاز کرنے والی تھی۔ یہ ایک ایسی فلم تصور کی جارہی تھی جو بولی وڈ اور ساؤتھ کے فلم بینوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتی تھی۔

اس رات سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا تھا جسے ناقدین اور مداح ’سونامی‘ کا نام دے رہے تھے۔ ٹوئٹس اور ویڈیوز کا سیلاب تھا۔ جیسے جیسے پہلے شو کا وقت قریب آرہا تھا، تجسس اور دیوانگی بڑھتی جارہی تھی۔ منہ اندھیرے جب سیکڑوں سنیما گھروں میں پہلے شو کا آغاز ہوا تو تمام تھیٹرز ہاؤس فل تھے۔ یہ کچھ حد تک متوقع تھا۔ تجزیہ کار بتا چکے تھے کہ یہ فلم ٹکٹ کی کھڑکی پر ’پٹھان‘ کو پچھاڑ چکی ہے۔ یہاں شاہ رخ خان کا مقابلہ خود شاہ رخ خان سے تھا۔

تمام بڑے ٹریڈ اینالسٹ اور فلم ناقدین صبح ہی سنیما ہالز پہنچ چکے تھے کیونکہ کوئی بھی اس موقع کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ مگرکیا فلم ان کی توقعات پر پوری اتری؟

فلم کے دھماکے دار انٹری سین سے لے کر باکمال انٹرول تک ’جوان‘ ایک رولر کوسٹر ثابت ہوئی۔ انٹرول ہی میں تجزیہ کاروں کی ٹوئٹس سامنے آنے لگیں جن میں ڈائریکٹر ایٹلی پر تعریف کے ڈونگرے برسائے جارہے تھے۔ چند گھنٹے بعد ری ویوز کا تانتا بندھ گیا۔ ردعمل توقعات سے بڑھ کر تھا۔ بیشتر بڑے ناقدین نے فلم کے ماتھے پر ستارے ٹانک دیے۔

تبصرہ نگار کا تعلق ہندی سرکٹ سے ہو یا تامل انڈسٹری سے، سب ہی نے فلم کو سراہتے ہوئے اسے ایک یقینی بلاک بسٹر قرار دیا جو فیملی تفریح اور معیاری ایکشن سے بھرپور تھی۔

جس وقت فلم کی تعریفوں کے پُل باندھے جارہے تھے، جوش اور توقعات عروج پر تھیں اور سوشل میڈیا پر ’جوان‘ کا ٹائٹل ٹاپ ٹرینڈ بن چکا تھا تب شاہ رخ خان نے ضرور اپنی فلم ’بازی گر‘ کا ڈائیلاگ دہرایا ہوگا کہ ’کبھی کبھی کچھ جیتنے کے لیے کچھ ہارنا پڑتا ہے، اور ہار کر جیتنے والے کو بازی گر کہتے ہیں‘۔

جوان اور بازی گر کا کنیکشن

’بازی گر‘ کے اس ڈائیلاگ کا فلمی فلسفہ شاہ رخ خان کی زندگی پر فٹ بیٹھتا ہے۔ ’جوان‘ کے اسٹار کو گزشتہ 5 برسوں میں بہت کچھ کھونا پڑا۔ پے در پے ناکامیوں نے اس کے اسٹارڈم پر سوالیہ نشان لگا دیے تھے حتیٰ کہ کہا جانے لگا کہ شاہ رخ خان کا دور ختم ہوگیا۔ وہ کانگریس کے قریب سمجھے جاتے تھے، اسی لیے بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد وہ نہ صرف مرکزی دھارے سے دور ہوئے بلکہ پروپیگنڈے اور بائیکاٹ مہمات کا بھی نشانہ بنے۔

فلم ’زیرو‘ کی بدترین ناکامی کے بعد جب وہ خاموشی سے سر جھکائے اپنے کام میں مصروف تھے تب کورونا جیسا عفریت سامنے آکھڑا ہوا جس نے نہ صرف فلموں کی شوٹنگ منجمد کردی بلکہ سنیما انڈسٹری ہی پر سوالیہ نشان لگا دیے۔ اور یہ بحث چھڑ گئی کہ سنیما گھروں پر عائد بندشوں اور او ٹی ٹی کی بڑھتی مقبولیت کے بعد بھاری سرمائے سے بنائی جانے والی فلمز کیا اب گھاٹے کا سودا ثابت نہیں ہوں گی؟

یہی مسائل کیا کم تھے کہ شاہ رخ خان کو ایک خاندانی بحران نے گھیر لیا۔ ان کا بیٹا ایک منشیات کیس میں پھنس گیا۔ اس واقعے کو بھی مخالفین نے ان کے خلاف استعمال کیا۔

تب یوں لگتا تھا کہ شاہ رخ خان کی واپسی کی راہیں مسدود ہوچکی ہیں۔ ایسے میں جب پٹھان کی ریلیز کا اعلان ہوا تو کچھ امیدیں بندھیں کہ شاید وہ کم بیک کرکے دوبارہ مرکزی دھارے میں شامل ہوجائیں البتہ مداحوں کی اصل امیدیں جوان سے وابستہ تھیں جس کے ہدایت کار ایٹلی کو ایکشن اور تفریح سے بھرپور بلاک بسٹر فلمز بنانے کے حوالے سے شہرت حاصل تھی۔

’جوان‘ میں شاہ رخ خان نے ایک ایسے شخص کا کردار نبھایا ہے جو اچھائی کی جیت کے لیے جرم کا راستہ اختیار کرنے سے نہیں جھجکتا۔ بالکل ’بازی گر‘ کے کردار اجے کی طرح جو انتقام کے لیے اپنی شخصیت کے منفی شیڈز کو باہر لے آتا ہے۔ اور پھر ایک ربط یہ بھی ہے کہ ’جوان‘ کی جیت تک پہنچنے کے لیے شاہ رخ خان کو بہت کچھ ہارنا پڑا تھا۔ انہی ناکامیوں کے بعد وہ یہ سمجھ سکے کہ آج کے فلم بینوں کی ڈیمانڈ کیا ہے اور اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے انہیں اپنی فلموں کے انتخاب میں کیا تبدیلیاں لانا ہوں گی۔

یہ تبدیلیاں پہلے پہل ہمیں ’پٹھان‘ میں نظر آئی تھیں۔ البتہ ’جوان‘ میں شاہ رخ خان رسک لیتے ہوئے ایک قدم اور آگے بڑھے اور ہم نے کنگ خان کو ایک بوڑھے آدمی، یونیفارم پہنے پولیس افسر اور ایک گنجے شخص کے روپ میں دیکھا۔

’جوان‘ کی کہانی اور سماجی مسائل کی نشان دہی

جوان انتقام کی کہانی ضرور ہے لیکن یہ انتقام فرد واحد کو شکست دینے تک محدود نہیں بلکہ سماج کے مسائل اجاگر کرتے ہوئے انقلابی اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ایک جانب جہاں فلم کرپشن، کسانوں کی خودکشیاں، بدعنوان، نااہل سیاست دانوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے گٹھ جوڑ کی نشان دہی کرتی ہے، وہیں یہ بااختیار، پُراعتماد عورت کی منظر کشی بھی کرتی ہے۔ چاہے نین تارا کا کردار ہو یا پھر دپیکا پڈوکون، وہ پراعتماد خواتین کی علامت ہیں جو شوہر کی عدم موجودگی میں بھی اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ ساتھ ہی جیل میں قید خواتین کی عزت نفس کی بحالی اور انہیں کارگر بنانے کی ضرورت کو بھی فلم میں اجاگر کیا گیا ہے۔

البتہ اہم نکتہ یہ ہے کہ ان سنگین مسائل کو تیز رفتار، پل پل بدلتے پلاٹ، مزاح اور بھرپور ایکشن کے ساتھ عکس بند کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ناظر کو بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ متعدد کردار اور وقفے وقفے سے آنے والے فلیش بیک کے باوجود ناظرین کو باندھے رکھنا بطور ہدایت کار ایٹلی کی کامیابی تھی۔ بالخصوص شاہ رخ خان کو ڈبل رول میں ایک حقیقی سپراسٹار کے طور پر پیش کرنا اس کا اصل کارنامہ ٹھہرا۔

شاہ رخ خان کے اس ماس اوتار کو تامل سرکٹ کے معروف موسیقار انورد کے میوزک کی کمک بھی حاصل تھی جس نے ہر ایکشن سین کو دو آتشتہ کردیا۔ وجے سیتھوپتی نے ولن کے کردار سے انصاف کیا۔ یہ کردار ظالم اور سفاک ضرور ہے مگر روایتی نہیں۔ یہ ایک ایسا اسٹائلش ولن ہے جو ناظرین کو ہنسانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ فلم کے ایڈیٹر، ایکشن ڈائریکٹر اور سنیماٹوگرافی کا کام بھی داد کا مستحق ہے۔

خامیاں اور باکس آفس توقعات

کوئی بھی فلم خامیوں سے مبرا نہیں ہوتی۔ یہی معاملہ ’جوان‘ کا بھی ہے۔ فلم کا بیک گراؤنڈ میوزک متاثر کن ہے۔ گیت بھی اچھے ہیں مگر ان کی پلیسمنٹ میں مزید بہتری کی گنجائش تھی۔ ایک دو جگہ گانے فلم کی تیز رفتاری میں رکاوٹ محسوس ہوئے۔ سنجے دت کا مختصر رول متاثر تو کرتا ہے مگر کہانی سے اس کا کوئی براہِ راست کنیکشن محسوس نہیں ہوتا۔ کچھ واقعات، کچھ چیزیں بہت تیزی سے رونما ہوتی ہیں اور جلد بھلا دی جاتی ہیں۔ البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فلم سے متعلق سوشل میڈیا اور شوبز ویب سائٹس پر شائع ہونے والے بیش تر تبصرے مثبت اور حوصلہ افزا ہیں اور عوام کی رائے المعروف (Word of Mouth) بھی اس کے حق میں جاتا ہے۔

جہاں تک باکس آفس کا تعلق ہے، پہلے دن کے نمبرز آچکے ہیں جو رجحان ساز ہیں۔ اولین دن کے تمام بڑے ریکارڈز ٹوٹ گئے۔ ہندی سرکٹ میں شاہ رخ خان نے اپنا ہی بنایا ہوا پٹھان کا ریکارڈ تہس نہس کر ڈالا۔ ساتھ ہی فلم کو ساؤتھ سرکٹ میں بھی مناسب پذیرائی ملی ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں بھی کنگ خان نے اپنے سابق ریکارڈ کو پچھاڑ دیا۔ ٹریڈ اینالسٹ یقین رکھتے ہیں کہ ویک اینڈ تک فلم شاندار بزنس کرے گی اور مزید کئی ریکارڈز پاش پاش ہوجائیں گے۔

’جوان‘ کا آغاز تو شاندار ہے مگر کیا یہ ’پٹھان‘ کی تاریخ دہرا پائے گی؟ کیا شاہ رخ خان ایک ہی سال میں دو بار 500 کروڑ کلب کا حصہ بننے کا اعزاز حاصل کریں گے؟

اس کا جواب ایک ہفتے بعد مل سکے گا۔ ابھی دلی دور ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں