بھارت کی حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما نے پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران مسلم رکن پارلیمنٹ کے خلاف کھلے عام اسلاموفوبیا پر مبنی ریمارکس دیتے ہوئے نفرت کا اظہار کیا ہے۔

غیر ملکی نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 21 ستمبر کو ایوانِ زیریں لوک سبھا میں بھارت کے تاریخی خلائی مشن کی کامیابی سے متعلق اجلاس میں بحث جاری تھی کہ اس دوران بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوری نے بھوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے مسلم رکن پارلیمان کنور دانش علی کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا۔

بی جے پی رہنما کی جانب سے مسلم رکن پارلیمنٹ کے خلاف توہین آمیز اور انتہائی نامناسب الفاظ استعمال کرنے والی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس کے بعد بھارت میں نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بی جے پی رہنما رمیش بدھوری ہندی میں مسلم رکن پارلیمنٹ کے خلاف اسلاموفوبیا پر مبنی ریمارکس استعمال کررہے ہیں۔

پارلیمنٹ میں گرما گرم بحث کے دوران دہلی کے جنوبی حلقے کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوری گالم گلوچ کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تم انتہا پسند ہو۔‘

اس دوران ایوان میں اسپیکر مسلم رکن پارلیمنٹ کو خاموش رہنے کا کہتے ہیں۔

دوسری جانب بی جے پی رہنما رمیش بدھوری ویڈیو کے آخر میں مسلم رکن پارلیمنٹ کو دھمکی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ مولوی انتہا پسند اور دہشت گرد ہے، اس مولوی کو میں باہر دیکھوں گا‘، ان ریمارکس کے بعد رمیش بدھوری کے ساتھ بیٹھے دیگر ارکان ہنستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

اسکائی نیوز کے مطابق بی جے پی رہنما کی جانب سے توہین آمیز ریمارکس کو پارلیمانی ریکارڈ سے نکال دیا گیا۔

دوسری جانب بی جے پی رہنما کی جانب سے پارلیمنٹ میں گالم گلوچ اور اسلاموفوبیا پر مبنی ریمارکس کے بعد بھارت کی دیگر سیاسی جماعتیں اور سوشل میڈیا صارفین رمیش بدھوری کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

مسلم رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی نے الجزیرہ کو بتایا کہ یہ تبصرے ان کے لیے ’حیران کن‘ نہیں ہیں لیکن انہیں دکھ پہنچا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں ( آر ایس ایس کے سربراہ) موہن بھاگوت اور وزیر اعظم نریندر مودی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آر ایس ایس اپنے کارکنوں کو یہی سکھاتا ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسی منتخب قانون ساز کو پارلیمنٹ کے اندر اس طرح دھمکیاں دی جا سکتی ہیں تو ذرا سوچیں ملک میں عام مسلمانوں کو کیا کچھ سامناکرنا پڑتا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بحث کے دوران پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن ارکان ان کے لیے کھڑے ہو گئے تھے، انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’کانگریس اور ٹی ایم سی (ترنمول کانگریس) کے ارکان بالخصوص خواتین ارکان پارلیمنٹ میری حمایت میں کھڑی ہوئی تھیں۔‘

رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کا کہنا تھا کہ ’مسلمانوں کو گالی دینا بی جے پی کی ثقافت کا ایک لازمی حصہ ہے، بی جے پی کے زیادہ تر رہنما ایسے رویے کو غلط نہیں سمجھتے‘۔

انہوں نے سماجی پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’نریندر مودی نے بھارتی مسلمانوں کو اپنی ہی سرزمین میں خوف کی ایسی حالت میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ مسکراتے ہوئے سب کچھ برداشت کر رہے ہیں۔‘

مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’اس رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچتی ہے، انہیں شرم آنی چاہیے۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں