مسلم لیگ (ن) میں بیانیے کی جنگ، پارٹی رہنماؤں کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کی تجویز

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2023
لندن میں 4 برس گزارنے کے بعد نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آنے والے ہیں —فائل فوٹو: ایکس/ذیشان ملک
لندن میں 4 برس گزارنے کے بعد نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آنے والے ہیں —فائل فوٹو: ایکس/ذیشان ملک

سابق فوجی جرنیلوں اور ریٹائرڈ ججوں کے بارے میں سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کےمؤقف میں اچانک تبدیلی پارٹی صفوں میں بے چینی کا باعث بن رہی ہے، بہت سے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ اس طرح کے بےباک بیانات اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کو دعوت دے سکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی ذرائع کا خیال ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) طاقتور حلقوں کی ’پسندیدہ‘ سیاسی جماعت بن چکی ہے، نواز شریف کی جانب سے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، جنرل (ر) فیض حمید اور سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ اور ثاقب نثار کے احتساب کا سخت مؤقف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس مثالی تعلق کو خراب کر سکتا ہے۔

لندن میں 4 برس گزارنے کے بعد نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آنے والے ہیں، ان کی آمد میں ایک ماہ باقی رہ گیا ہے لیکن وہ جن جرنیلوں اور ججوں پر 2017 میں خود کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی ’سازش‘ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں اُن کے ’کڑے احتساب‘ کے دیرینہ مطالبے کو ترک کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔

تاہم پارٹی کے موجودہ صدر اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے اُن کو حال ہی میں لندن میں ہونے والے اجلاس میں اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کے لیے قائل کرنے کی پوری کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، ذرائع کا کہنا ہے کہ اب پارٹی ممکنہ ردعمل سے چوکنا ہو کر بیٹھی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں اور کارکنوں کے ساتھ اجلاس کے دوران شہباز شریف نے احتساب کے حوالے سے لندن سے دی گئی نیوز بریفنگ پر برہمی کا اظہار کیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی کہ پارٹی کے گزشتہ اجلاس میں احتساب کا معاملہ زیربحث آیا تھا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسی کوئی بات نہیں کی گئی۔

پارٹی کے کچھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ ’جنرل اور جج مخالف‘ بیانیے کے ممکنہ ردعمل سے فکرمند ہیں، سابق پی ڈی ایم حکومت کے ایک رکن نے رائے دی کہ ہمیں باجوہ مخالف بیانیے میں بہت محتاط رہنا ہوگا، 2014 میں جنرل مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کرنے کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے، ماضی کو بھول کر مصالحت کی طرف جانا چاہیے، کون جانتا ہے کہ احتساب کا یہ نعرہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں مسلم لیگ (ن)، بالخصوص نواز شریف کو کہاں لے جائے گا۔

اُن کے مطابق مسلم لیگ (ن) اقتدار حاصل کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں ہے اور کوئی بھی ’غلط اقدام‘ اس پیش رفت کو پلٹ سکتا ہے، ہمیں عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کے حال کو نہیں بھولنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر پارٹی رہنما ایسے وقت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم کی پالیسی اپنانے کی ضرورت پر سوال اٹھا رہے ہیں جب پی ٹی آئی کو ’ اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی’ سمجھا جارہا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس اور بھی بہت سی چیزیں/کارنامے ہیں جنہیں وہ اپنا بیانیہ تشکیل دینے کے لیے استعمال کر سکتی ہے، ووٹ حاصل کرنے کے لیے سابق جرنیلوں سے مقابلہ کیوں ضروری ہے؟

ایک اور رہنما نے بتایا کہ جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کے بارے میں نواز شریف کے بیانات پر ردعمل دیکھتے ہوئے میرا خیال ہے کہ شاید اس موضوع کو انتخابات تک چھوڑ دینا مناسب ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو یہ احتساب کا مسئلہ دوبارہ اٹھایا جا سکتا ہے، ابھی ہمیں اپنے بیانیے کو معاشی بحران پر مرکوز رکھنا چاہیے، الزام تراشی کا کھیل کوئی حل پیش نہیں کر رہا۔

سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اپنے قائد نواز شریف کی جانب سے پیش کیے گئے بیانیے کا دفاع کرتے ہوئے اسے ایک اصولی مؤقف قرار دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، نواز حکومت کو ہٹانے اور معیشت تباہ کرنے میں ملوث ’اصل کرداروں‘ کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔

’سب اچھا ہے‘

سیکریٹری اطلاعات مسلم لیگ (ن) عظمیٰ بخاری نے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا کہ سابق جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کے لیے نواز شریف کے مطالبے پر پارٹی کے اندر بے چینی پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس آئیں گے اور اسی دن مینار پاکستان پر عوام کو پاکستان کے مسائل کی وجوہات بتائیں گے اور ان کا حل بھی پیش کریں گے۔

اُن سے پوچھا گیا کہ جنرل (ر) باجوہ کو ٹارگٹ کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو کیا مسلم لیگ (ن)، چیئرمین پی ٹی آئی عمران کی طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کا دروازہ کھول سکتی ہے؟ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ہمارا عمران خان سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، اسٹیبلشمنٹ کو ’جانور‘ یا ’ڈرٹی ہیری‘ کہنے پر بھی ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی، پی ٹی آئی کو ردعمل کا سامنا 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرکے ریڈ لائن عبور کرنے کے بعد کرنا پڑا۔

احتیاط کا مشورہ

مسلم لیگ (ن) کے رہنما ہی نہیں بلکہ کچھ سابق اتحادی بھی نواز شریف کو اپنا مؤقف تبدیل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، پیپلزپارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) دونوں نے اس سلسلے میں شریف برادران کو متنبہ کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ نے نواز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ جنرل (ر) باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کارروائی نہ کریں۔

ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں خورشید شاہ سے جب نواز شریف کے بیان کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے دونوں سابق فوجی سربراہان کے خلاف کارروائی کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل لگ رہا ہے۔

جہانگیر ترین بھی چاہتے ہیں کہ نواز شریف سابق جرنیلوں کے ساتھ دشمنی چھوڑ دیں، انہوں نے مشورہ دیا کہ نواز شریف کو اپنی سیاست کے لیے شخصیات، خاص طور پر جنرل (ر) باجوہ اور سپریم کورٹ کے ایک موجودہ جج (جوکہ مستقبل کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے والے ہیں) کا نام نہیں لینا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں