لاپتا افراد کا زیر التوا معاملہ عدالت کیلئے ’باعث شرمندگی‘

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2023
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت کی —فائل فوٹو: ڈان نیوز
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت کی —فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاپتا افراد کے کیسز سے متعلق ایک درجن کے قریب درخواستوں کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا ہے کہ یہ معاملہ گزشتہ کئی برسوں سے زیر التوا ہونے کے باعث عدالت کو شرمندگی محسوس ہورہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کی جانب سے یہ ریمارکس صحافی مدثر نارو کی گمشدگی سے متعلق معاملے کی سماعت کے دوران دیے گئے، مدثر نارو شمالی علاقوں کے دورے کے دوران لاپتا ہو گئے تھے۔

لاپتا صحافی کی اہلیہ نے تقریباً پانچ سال قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا جب کہ اس دوران وہ انتقال کر گئیں۔

مدثر نارو کا چھوٹا بیٹا عام طور پر کیس کی کارروائی میں شرکت کے لیے عدالت آتا ہے۔

جمعرات کو سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے نوٹ کیا کہ جبری گمشدگیوں کے کیسز پاکستان کے تشخص کو خراب کر رہے ہیں اور ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

انہوں نے اٹارنی جنرل فار پاکستان سے دیرینہ مسئلہ حل کرنے میں مدد طلب کی۔

جب مدثر نارو کیس عدالت عالیہ کے سامنے آیا تو چیف جسٹس نے نوٹ کیا کہ عدالت شرمندہ ہے کہ یہ معاملہ پانچ سال سے التوا کا شکار ہے۔

جمعرات کو وکیل فیصل صدیقی بھی عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوئے، رپورٹ پیش کرتے ہوئے انہوں نے بینچ کو بتایا کہ انہوں نے اس معاملے پر چھ سوالات کیے ہیں اور عدالت سے ریلیف طلب کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ درخواست گزار ایسا ریلیف مانگ رہے ہیں جو کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

درخواست گزاروں میں سے ایک نے عدالت کو بتایا کہ ان کے دونوں بیٹے کافی عرصے سے لاپتا ہیں جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ وہ ان کا درد سمجھ سکتے ہیں اور لاپتا افراد کو بھول نہیں سکتے، انہوں نے اسے غیر معمولی کیس قرار دیا جس کے باعث ملک کی بدنامی ہوئی، انہوں نے مزید کہا کہ ریاست اس معاملے میں بے بس دکھائی دے رہی ہے۔

بینچ نے تجویز دی کہ آٹارنی جنرل اس معاملے پر نگران وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ کر سکتے ہیں۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے نشاندہی کی کہ ایک سابق وزیراعظم نے بھی جبری گمشدگیوں کے معاملے پر عدالت میں بات کی تھی لیکن انہوں نے اس کو روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل بیرسٹر منور اقبال دگل نے کہا کہ حکومت اس معاملے کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ حکومت سنجیدہ ہے تو کوئی نتیجہ ضرور دکھائے۔

عدالت عالیہ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

تبصرے (0) بند ہیں