امریکا کے صدر جوبائیڈن کی جانب سے اسرائل میں ’حملہ آوروں‘ کی جانب سے بچوں کے سرقلم کیے جانے کی تصاویر دیکھنے کے دعوے پر وائٹ ہاؤس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو بائیڈن دراصل ’میڈیا رپورٹس‘ کا حوالہ دے رہے تھے جبکہ اس کی تصدیق تاحال نہیں ہوئی۔

رواں ہفتے کے شروع میں متعدد میڈیا اداروں کی طرف سے اسرائیل میں حملے کے بعد بچوں کو قتل کرنے کے الزامات لگائے جارہے تھے جبکہ اسرائیل کی حکومت کی طرف سے تصدیق نہیں کی گئی۔

این بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے یہودی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں اسرائیل اور فلسطین میں جاری تنازع کی ہولناک تصاویر پیش کیں۔

نشریاتی ادارے نے جو بائیڈن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں دہشت گردوں کی طرف سے بچوں کو قتل کرنے جیسی تصاویر دیکھوں گا‘۔

تاہم جو بائیڈن کی انتظامیہ کے دو سینیئر عہدیداروں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن اسرائیل میں بچوں کے سر قلم کرنے کے حوالے سے رپورٹس کا حوالہ دے رہے تھے اور متعدد میڈیا رپورٹ کا حوالہ دیا۔

این بی سی نے کہا کہ ان رپورٹس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

بچوں کے سر قلم کرنے کے الزامات سب سے پہلے اس وقت زیر بحث آئے جب اسرائیلی حکومت کے سرکاری اکاؤنٹ پر اسرائیل کے خلاف جنگ کی مذمت کرنے کے پیش نظر فوٹیج جاری کیے گئے تھے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ 40 بچوں کو قتل کردیا گیا جس کے بعد متعدد ویب سائٹ بشمول سی بی ایس اور ٹائمز آف انڈیا نے فیچر اسٹوریز کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ درجن بچوں کے سر قلم کر دیے گئے ہیں۔

تاہم انادولو ایجنسی نے اسرائیلی فوج کے ترجمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے دعووں کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔

خیال رہے کہ اسرائیلی فورسز کے فضائی اور زمینی حملوں میں غزہ میں ہسپتالوں اور اسکولوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، اب تک ایک ہزار 200 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں اور تقریباً 3 لاکھ 38 ہزار افراد بے گھر ہونے پر مجبور ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں