حکومت کا نیب ترمیمی آرڈیننس غیر قانونی قرار دینے کے خلاف اپیل کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 13 اکتوبر 2023
منصور اعوان نے وضاحت کی کہ اس کے مطابق وفاقی حکومت 15 ستمبر کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گی — فوٹو: ڈان
منصور اعوان نے وضاحت کی کہ اس کے مطابق وفاقی حکومت 15 ستمبر کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گی — فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کو برقرار رکھنے کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے تناظر میں وفاقی حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں ترمیم شدہ قومی احتساب آرڈیننس کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل فار پاکستان منصور عثمان اعوان نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اپیل آئندہ ہفتے کے شروع میں فائل کیے جانے کا امکان ہے۔

حکومت جس تنازع کو اجاگر کرنا چاہتی ہے، اس کی حمایت میں اضافی دستاویزات پیش کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ سے اجازت بھی طلب کی جا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 11 اکتوبر کو جاری کردہ مختصر حکم نامے کے مطابق نیب آرڈیننس میں ترامیم کے فیصلے سمیت سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دیے گئے تمام فیصلے قابل اپیل ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اس کے مطابق وفاقی حکومت 15 ستمبر کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گی۔

اپیل اس لیے ضروری ہے کہ فل کورٹ کے 11 اکتوبر کو پریکٹس اور پروسیجر کیس میں دیے گئے فیصلے نے 5 کے مقابلے میں 10 کی اکثریت سے قانون کو آئینی طور پر برقرار رکھا اور اس کے خلاف تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔

تاہم، مختصر حکم نامے میں 6 کے مقابلے میں 9 کی اکثریت سے یہ بھی وضاحت کی گئی کہ ممکنہ طور پر اپیل کا حق دینے سے متعلق ایکٹ کا سیکشن 5 (1) آئین کے مطابق تھا۔

نیب ترامیم مسترد کیے جانے کا فیصلہ 15 ستمبر کو کیا گیا، جبکہ 21 اپریل کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 پارلیمنٹ ایکٹ بن گیا، اس طرح اپیلیں دائر کرنے کی گنجائش ہے۔

اس کے علاوہ سابق پی ڈی ایم حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ2023 کے سیکشن 3 کے تحت آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت تمام مقدمات کی سماعت سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی کی جانب سے تشکیل دیا گیا بینچ کرے گا۔

وکیل نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی تھی کہ آئینی دفعات کی تشریح سے متعلق مقدمات کی سماعت ایکٹ کے سیکشن 4 کے مطابق کم از کم پانچ ججوں پر مشتمل بینچ کرے گا۔

اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔

نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس سید منصور علی شاہ نے 18 اگست کو ایک نوٹ میں سیکشن 3 اور 4 کی آئینی حیثیت کو کسی اور بینچ کی جانب سے برقرار رکھنے کی صورت میں نیب کیس کالعدم ہونے کے امکان کو اجاگر بھی کیا تھا۔

اس کے بعد وکیل مخدوم علی خان نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ پر حتمی فیصلہ آنے تک کیس کی سماعت ملتوی کی جائے یا پھر نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا آئین کے مطابق قانون سازی کے عمل کو نظر انداز کرنے کی ایک کوشش ہے۔

اگر اس طرح کی کوشش کی اجازت دی گئی تو مستقبل میں تمام سیاسی جماعتیں جن کے پاس پارلیمنٹ میں قانون منظور کرانے یا اس کی مخالفت کے لیے اکثریت نہیں ہے، آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو براہ راست استعمال کرکے قانون سازی کے عمل کو نقصان پہنچائیں گی۔

تاہم عدالت نے اس درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں