برطانیہ: فلسطینی پرچم اٹھانے کو جرم قرار دینے کے مطالبے پر وکلا اور ماہرین کا اظہار مذمت

اپ ڈیٹ 15 اکتوبر 2023
وکلا اور ماہرین نے برطانیہ میں فلسطینی پرچم لہرانے کو جرم قرار دینے کے مطالبے کی مذمت کی— فائل فوٹو: اے ایف پی
وکلا اور ماہرین نے برطانیہ میں فلسطینی پرچم لہرانے کو جرم قرار دینے کے مطالبے کی مذمت کی— فائل فوٹو: اے ایف پی

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے معروف وکلا اور این جی اوز نے برطانوی وزیر داخلہ کی جانب سے ملک میں فلسطینی پرچم اٹھانے کو جرم قرار دینے کے مطالبے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

ممتاز برطانوی وکیل نے کہا ہے کہ فلسطینی جھنڈا اٹھانا فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے لیے جائز جدوجہد اور فلسطین کی تسلیم شدہ ریاست میں رہنے کے حق کے ساتھ یکجہتی کی علامت ہے اور اسے جرم تصور نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

یٰسین پٹیل نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی پرچم لہرا کر آپ اپنی ہمدردی کے ساتھ ساتھ اپنے خدشات اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور فلسطینیوں اور مصائب کا شکار لوگوں کے لیے حمایت کا اعلان کرتے ہیں جو کہ کوئی جرم نہیں ہے۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے سینئر پولیس سربراہوں کو خط لکھ کر کہا تھا کہ فلسطینی پرچم لہرانا یا مقبوضہ علاقے کی آزادی کی وکالت کے حوالے سے لگایا گیا نعرہ جرم ہوسکتا ہے۔

منگل کو جاری خط میں انہوں نے کہا کہ یہ صرف حماس کی حامی واضح علامات اور نعرے ہی نہیں ہیں جو باعث تشویش ہیں بلکہ میں پولیس کو اس بات پر غور کرنے کی ترغیب بھی دوں گی کہ انہیں ’دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہوگا‘ جیسے نعروں کو اسرائیل کو دنیا سے مٹانے کی پرتشدد خواہش کے اظہار کے طور پر دیکھنا چاہیے اور کیا اس کا استعمال نسلی حملے کے متعلق سیکشن 5 پبلک آرڈر جرم کے لیے کچھ مخصوص سیاق و سباق میں ہو سکتا ہے۔

یٰسین پٹیل نے کہا کہ گزشتہ ہفتے حماس کے اچانک حملے کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر گزشتہ آٹھ دنوں سے جاری مسلسل حملوں کے بعد یہ الفاظ اظہار رائے کی آزادی کے حق پر گہرا اثر ڈالتے ہیں جو کہ ایک بنیادی حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر لوگ فلسطینی مقصد کی حمایت کرنے والے مارچز کے دوران پرچم کا استعمال کرتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایسا کرنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ یہ برطانیہ کے قانون کے مطابق بنیادی حق ہے اور یورپی چارٹر میں شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پبلک آرڈر کے لحاظ سے کسی کو مشتعل کرنے کے لیے اسے بھڑکانا پڑتا ہے، قانون توڑنا پڑتا ہے یا کوئی ایسا کام کرنا ہوتا ہے جو غیر قانونی ہو، یہاں جو الزام لگایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جھنڈا لہرانے سے، آپ اسرائیلی شہریوں یا اسرائیل کے لیے ہمدردی رکھنے والوں اور/یا متبادل طور پر حماس کی حمایت کرنے والوں کو پریشان کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حماس ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم ہے لیکن فلسطینی پرچم حماس کا نہیں ہے اور حماس کا پرچم فلسطینی پرچم نہیں ہے۔

وکیل یٰسین پٹیل نے مزید کہا کہ سویلا بریورمین سرخیاں چاہتی ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے دو پیسوں سے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ اگلے وزیر اعظم کے طور پر خود کو کھڑا کر سکیں لیکن بالآخر قانونی لحاظ سے یہ بہت آسان ہے، فلسطینی جھنڈا لہرانا دہشت گردی کا عمل نہیں، یہ غیر قانونی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایسا محسوس کرتی ہیں کہ ایسا ہی ہے تو وہ خوشی سے ان لوگوں کو گرفتار کر سکتی ہیں جو فلسطینی جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں، اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف میں خود بلکہ ہزاروں دیگر وکلا خوشی سے ان لوگوں کی نمائندگی کریں گے جو عدالتوں کے سامنے کھڑے ہو کر جواب دیں گے کہ انہوں نے کیا جرم کیا ہے۔

معروف وکیل نے کہا کہ کچھ دن پہلے ڈاؤننگ اسٹریٹ پر اسرائیلی جھنڈا لگا ہوا تھا، کوئی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے لیکن میں قدرے حیران ہوں کہ حکومت صرف ایک فریق کی حمایت کرتی ہے لیکن ان تمام معصوم کمسنوں، بچوں اور شہریوں کو، جو مر رہے ہیں اور اسرائیلیوں فوج کے ہاتھوں مرنے والے ہیں انہیں ان کی کوئی فکر نہیں۔

انسانی حقوق کی ایک سابق وکیل بیلیگ جبارا نے سویلا بریورمین کے دو صفحات پر مشتمل خط کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ برطانوی معاشرے کے لیے اس خط سے اتفاق کرنا مشکل ہوگا اور سوال کیا کہ آیا یہ قانون و ضوابط اور پولیس کے اختیارات کے لیے قابل قبول ہو گا یا نہیں۔

بیلیگ جبارا نے کہا کہ اگر برطانوی حکومت اور پارلیمنٹ حماس کو ایک دہشت گرد گروہ کہہ رہی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ برطانیہ کو اپنے معاشرے کو ایسے گروہ کی حمایت سے روکنے کے لیے کیا کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم برطانوی معاشرے کو باہر سے پیش آنے والے ایسے ایسے واقعات اور ان کے ہمارے معاشرے کا حصہ بننے سے بچانے کی بات کر رہے ہیں، جیسا کہ القاعدہ اور داعش کے معاملے میں ہوا جہاں نوجوان نسلیں لڑنے کے لیے مشرق وسطیٰ گئی تھیں۔

برطانیہ میں فلسطینیوں کے انسانی حقوق کے دفاع سے وابستہ ایک این جی او ’فرینڈز آف الاقصیٰ‘ نے برطانوی سیکریٹری داخلہ کی اس تجویز پر اظہار مذمت کیا ہے کہ فلسطینی پرچم لہرانا یا آزاد فلسطین کا نعرہ لگانا ایک مجرمانہ فعل ہوگا اور کہا کہ یہ درپردہ دھمکی ناقابل قبول اور سیاسی اظہار سے انکار ہے۔

دریں اثنا برطانیہ میں فلسطینی کمیونٹی کے سابق صدر رجب شملاخ نے کہا کہ سویلا بریورمین کا بیان واضح طور پر اسرائیل کا ساتھ دینے کے مترادف ہے حالانکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے شہریوں پر حملے کرکے، گھروں پر بمباری کرکے فلسطینی عوام کو بہت زیادہ تکالیف پہنچائی ہیں اور وہ اب تک 600 سے زیادہ فلسطینی بچوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی احتجاج کرتا ہے تو اسے ان لوگوں کا جھنڈا اٹھانا پڑتا ہے جن کے ساتھ وہ ہمدردی رکھتے ہیں کیونکہ جو تصویر ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایک بڑی تباہی ہے، اس لیے یقیناً ہمیں فلسطینی پرچم اٹھانا ہوگا، ہم ان لوگوں کو دکھائیں جو محاصرے میں ہیں، جن پر بمباری کی جا رہی ہے، جو مارے جا رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں