پاکستان مسلم لیگ (ن) اور استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) نے مطالبہ کیا ہےکہ چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی سابقہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر سوشل میڈیا مہم چلانے کے لیے ’ٹرولز‘ اور ’انفلوئنسرز‘ کی بھرتی کے لیے ریاستی فنڈ میں سے 87 کروڑ روپے کے غلط استعمال پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف نے ان الزامات کو پارٹی کے خلاف ذاتی مفادات حاصل کرنے کی غرض سے ’بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا مہم‘ قرار دے دیا اور مطالبہ کیا ہے کہ اگر اس منصوبے میں غلطیاں ہیں تو سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے خلاف تفتیش کی جائے۔

لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تفصیلات موجود ہیں کہ کیسے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے 2019 میں 1100 ٹرلوز بھرتی کیے جن کا ہدف سیاستدان اور صحافی تھے۔

انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ قومی خزانے کے 87 کروڑ روپے اس مقصد پر خرچ کیے گئے، پی ٹی آئی کو یہ رقم اپنے پارٹی فنڈز سے خرچ کرنی چاہیے تھی۔

عطا اللہ تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ ان اکاؤنٹس کے ذریعے ریاستی اداروں کو بھی نشانہ بنایا گیا، انہوں نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سمیت ٹرولز کو بھرتی کرنے میں شامل تمام لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، ان کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو اس رقم کا حساب دینا ہوگا۔

ایک مختلف مگر اسی طرح کی میڈیا گفتگو میں آئی پی پی کی سیکریٹری اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ قومی خزانے سے 87 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں تاکہ چیئرمین تحریک انصاف کو اچھے انداز میں پیش کیا جاسکے اور ریاستی اداروں کی مخالفت کی جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اداروں کی مخالفت کے لیے 800 نقلی اکاؤنٹس بنائے گئے، انہوں نے کہا کہ ریاستی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے تحریک انصاف نے ایک جعلی بیانیہ بنایا جس نے خاندانوں اور قوم کو تقسیم کردیا۔

انہوں نے اس بیانیے کی وجہ سے نوجوانوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے پر تحریک انصاف کے رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

فردوس عاشق اعوان نے چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا، لاہور اور اسلام آباد میں بالترتیب عمران خان کی رہائش گاہ کا حوالہ دیتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ پروپیگنڈا مہم کا تعلق زمان پارک اور بنی گالہ سے ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے خیبرپختونخوا میں میڈیا سیل تشکیل دیا کیونکہ ان کو سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کرنے کا فوبیا تھا، انہوں نے الزام لگایا کہ سوشل میڈیا ٹیم کو تحریک انصاف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی تھی۔

خود کو معاملے سے دور کردیا

ایک سوال کے جواب میں جس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ تحریک انصاف کا حصہ ہوتے ہوئے اس معاملے سے لاعلم تھیں، فردوس عاشق نے بتایا کہ جب تحریک انصاف نے اداروں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو انہوں نے اپنے آپ کو تحریک انصاف سے دور کرلیا تھا۔

آئی پی پی کے دوسرے رہنما اور تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کا دعویٰ ہے کہ وہ خود ان ٹرولز کو بھرتی کرنے کے چشم دید گواہ ہیں۔

ایک نجی چینل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ان سوشل میڈیا ٹیم کی کاکردگی کی رپورٹس فیصل جاوید، افتخار درانی اور ارسلان خالد سے لیا کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2021 میں جب تحریک انصاف کو یہ معلوم ہوا کہ ان کی حکومت گھر جانے والی ہے، تب خیبرپختونخوا حکومت نے سالانہ ترقیاتی فنڈ کے عوض ان ٹرولز کو بھرتی کرنا شروع کیا۔

انہوں نے ( تقریباً ان 800 اکاؤنٹس) پر تحریک انصاف کے کارکنان کو بھڑکا کر 9 مئی والے دن فوجی اور ریاستی تنصیبات پر حملہ کروانے کا الزام عائد کیا۔

بھرتیوں سے لاتعلقی کا اعلان

ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے تحریک انصاف نے سماجی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر بتایا کہ اس منصوبے کے تحت خیبرپختونخوا کی 1166 یونین کونسلز میں سے ایک ایک مقامی سوشل میڈیا انفلوئنسر کو انٹرنشپ پر رکھا گیا، تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم یا پارٹی کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا، 72 فیصد لوگوں کا بھرتی کے وقت کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر اس منصوبے میں کوئی کوتاہیاں ہیں تو سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے خلاف کارروائی کا آغاز ہونا چاہیے جو اس وقت وزیر منصوبہ بندی بھی تھے۔‘

پارٹی کا مزیدکہنا تھا کہ نگران حکومت نے ایف آئی اے کو حکم دیا تھا کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کرے مگر ’اس حوالے سے کچھ نہیں ملا تو اس کے بعد اس کا دوبارہ ذکر نہیں کیا گیا‘۔

خیال رہے کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ محمود خان پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر پرویز خٹک کی زیر صدارت پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کا حصہ بن گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں