ایون فیلڈ، العزیزیہ ریفرنس: سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیلیں بحال

اپ ڈیٹ 26 اکتوبر 2023
سابق وزیر اعظم نواز شریف پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے — فوٹو: ڈان نیوز
سابق وزیر اعظم نواز شریف پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے — فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں بحال کردیں۔

ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں حفاظتی ضمانت اور سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی نواز شریف کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل خصوصی بینچ نے سماعت کی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے، پراسیکیوٹر جنرل نیب احتشام قادر شاہ، نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ، امجد پرویز نے دلائل دیے۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ مجھے عدالت نے حکم دیا تھا کہ چیئرمین نیب سے درخواستوں پر رائے لی جائے، ہم نے تفصیل میں نواز شریف کی درخواستوں پر تبادلہ خیال کیا ہے، ہم نے دونوں اپیلوں کے حقائق اور قانون کا مطالعہ کیا ہے، پہلے ایون فیلڈ کیس سے متعلق بتانا چاہتا ہوں۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ ریفرنس واپس لینے کی گنجائش صرف اس صورت میں ہے جب فیصلہ نہ سنایا گیا ہو، احتساب عدالت نے کیسز پر فیصلہ سنایا تو اس کے خلاف اپیلیں دائر کی گئیں، ریفرنسز واپس لینے کی گنجائش ٹرائل کے دوران موجود تھی۔

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق اگر فیصلے کے خلاف اپیل دائر ہو جائے تو کیس واپس نہیں ہو سکتا، اگر اپیل دائر ہو جائے تو اس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، عدم پیروی پر بھی خارج نہیں ہو سکتی، اگر ان اپیلوں کو بحال کریں گے تو پھر انہیں میرٹ پر دلائل سن کر فیصلہ کرنا ہو گا۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس سپریم کورٹ کے آرڈر کی روشنی میں دائر کیا گیا تھا، سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی بھی قائم کی گئی تھی، چیئرمین نیب کی منظوری سے ریفرنسز دائر کیے گئے تھے۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ پراسیکیوٹر کا فرض ہے کہ وہ ریاست کے مفادات کی حفاظت کرے، بلکہ انصاف کو بھی ملحوظ خاطر رکھے، ملزم قانون میں موجود تمام ریلیف کا حقدار ہوتا ہے اگر وہ قانون کی پاسداری کرے، اگر اشتہاری ملزم سرنڈر کرتا ہے تو اس کو قانون کے مطابق تمام ریلیف ملنا چاہیے۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ نیب کا جامع مؤقف ہے کہ نواز شریف کی اپیلیں بحال کی جائیں، نواز شریف اپنی اتھارٹی عدالت میں سرنڈر کر چکے ہیں، نیب کو نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ہم اپیلوں پر تب مؤقف دیں گے جب اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہوں گی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا آپ اپیلوں کے نتیجے میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کی حمایت میں موقف دیں گے؟ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ ابھی اپیلوں کا معاملہ عدالت کے سامنے نہیں ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے پراسیکیوٹر جنرل سے مکالمہ کیا کہ پہلے مرحلے میں آپ کو اپیلوں کی بحالی پر کوئی اعتراض نہیں، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ اپیلیں بحال ہو گئیں تو پھر شواہد کا جائزہ لے کر عدالت میں موقف اختیار کریں گے۔

نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ عدالت نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا کے خلاف اپیلوں میں نواز شریف کے کردار کا بغور جائزہ لیا گیا، عدالت نے قرار دیا کہ نواز شریف کے کردار کا جائزہ لیے بغیر باقی دو ملزمان کی اپیلوں پر فیصلہ ناممکن ہے، عدالت نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے انہیں بری کردیا تھا، عدالت نے یہ بھی لکھا کہ اپیلوں پر سماعت کے دوران نیب کو متعدد بار اپنے پراسیکیوٹرز تبدیل کرنے پڑے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میرے 30 سالہ کیرئیر میں ایسا کوئی کیس نہیں کہ اشتہاری ملزم عدالت میں آکر کھڑا ہوگیا ہو اور اس کا اسٹیٹس بحال نہ ہوا ہو، جب ملزم عدالت میں آجاتا ہے تو اس کے وارنٹ اسی وقت منسوخ کردیے جاتے ہیں، اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ جہاں تک گِرل کا معاملہ ہے اس کا اس کیس میں کردار نہیں بنتا تھا، میاں گل حسن اورنگزیب نے مریم نواز کا حوالہ دیتے ہوئے گرل کا لفظ استعمال کیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے مکالمہ کیا کہ آپ کہنا چاہتے کہ نواز شریف کی اپیلوں پر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ جی بالکل، نواز شریف سرنڈر کر چکے ہیں، عدالتی رحم و کرم پر ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نواز شریف کی گرفتاری چاہتے ہیں؟ نیب پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ پہلے ہی بتا چکا ہوں بالکل بھی نہیں، عدالت کے کسی فیصلے میں نواز شریف کو گرفتار کرنے کا حکم نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ عدالت نواز شریف سے نئے ضمانتی مچلکے طلب کر سکتی ہے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بعد ازاں عدالت نے درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلیں بحال کردیں۔

واضح رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں ضمانت ملنے کے بعد ہائی کورٹ نے بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں دی گئی ضمانت میں 26 اکتوبر تک توسیع کردی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی خصوصی بینچ نے نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس پر سزا کے خلاف اپیل کی بحالی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی تھی۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 19 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں 21 اکتوبر کو نواز شریف نے وطن واپسی پر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور العزیزیہ ریفرنسز میں اپنی سزاؤں کے خلاف زیر التوا اپیلوں کی بحالی کے لیے درخواستوں پر دستخط کردیے تھے۔

یاد رہے کہ نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سزا سنائی گئی تھی، العزیزیہ ملز ریفرنس میں انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 برس کے لیے قید کردیا گیا تھا تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں