پیپلزپارٹی لیول پلیئنگ فیلڈ کا رونا بند، انتخابی میدان میں مقابلہ کرے، مسلم لیگ (ن)

اپ ڈیٹ 07 نومبر 2023
مریم اورنگزیب نے مسلم لیگ (ن) کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے پر پیپلزپارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
مریم اورنگزیب نے مسلم لیگ (ن) کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے پر پیپلزپارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) نے اپنی سابقہ اتحادی جماعت پیپلزپارٹی پر طنز کرتے ہوئے اسے مشورہ دیا ہے کہ وہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا رونا بند کرے اور سیاسی میدان میں اس کا مقابلہ کرے، پارٹی سربراہ نواز شریف نے بھی گزشتہ روز پارٹی رہنماؤں کو آئندہ برس 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے کمر کسنے کی ہدایت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ نواز شریف جلد ہی ان جماعتوں کی قیادت سے بات چیت کریں گے جو پی ڈی ایم حکومت میں اس کی اتحادی تھیں، اطلاعات سامنے آئیں کہ شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان گزشتہ روز ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔

مبینہ رابطے میں دونوں رہنماؤں نے ’ملک کی بہتری‘ کی خاطر 2024 کے انتخابات سے پہلے اور بعد میں دونوں جماعتوں کے درمیان مشترکات کی تلاش کے لیے ساتھ بیٹھنے پر اتفاق کیا۔

تاہم ترجمان مسلم لیگ (ن) مریم اورنگزیب نے ’ڈان‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان گزشتہ روز کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

لاہور میں پارٹی اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے مریم اورنگزیب نے مسلم لیگ (ن) کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے پر پیپلزپارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ پیپلزپارٹی لیول پلیئنگ فیلڈ کا رونا بند کرے اور خود کو الیکشن کے لیے تیار کرے، ایک طرف پیپلز پارٹی انتخابات میں کلین سوئپ کرنے کی بات کر رہی ہے اور دوسری طرف لیول پلیئنگ فیلڈ کا رونا رو رہی ہے، لیول پلیئنگ فیلڈ پر رونا شکست کی نشانی ہے۔

رواں سال اگست میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان خوشگوار تعلقات نہیں ہیں۔

پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) پر وفاق میں قائم نگران حکومت کا حصہ بننے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملی بھگت کا الزام عائد کیا ہے، پیپلزپارٹی کو خدشہ ہے کہ ایسی صورتحال میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکتا، نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرقیادت نگران کابینہ میں شامل کم از کم 3 اراکین، احد چیمہ، فواد حسن فواد اور عمر سیف ایسے افراد ہیں جن کا شریف خاندان کے ساتھ قریبی تعلق سمجھا جاتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف اتحاد کا حصہ بن رہی ہے تاکہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دیا جا سکے، علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا امکان بھی مسترد کر دیا ہے۔

تاہم مسلم لیگ (ن) نے وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت گرانے میں معاونعت فراہم کرنے کے سبب جہانگیر خان ترین کی استحکام پاکستان پارٹی کو اپنے ساتھ ملانے کے امکان کو فی الحال مسترد نہیں کیا ہے۔

نواز شریف کی زیرسربراہی مسلم لیگ (ن) کا اجلاس

مسلم لیگ (ن) کے ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ میں نواز شریف نے اجلاس کی صدارت کی اور شرکا سے کہا کہ وہ انتخابات کی تیاریاں شروع کر دیں۔

اس موقع پر نواز شریف نے کہا کہ ان کی پچھلی 3 حکومتوں کی طرح اس بار بھی ان کی سیاسی مہم کا مرکزی نقطہ معیشت کی بحالی ہے، معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ اگر عوام نے ہمیں آئندہ انتخابات میں منتخب کیا تو معیشت کی بحالی ہمارا اولین ہدف ہوگا، ہم معیشت کو مضبوط کریں گے، روزگار فراہم کریں گے اور ملک کو دہشت گردی سے نجات دلائیں گے، پارٹی رہنما اور کارکنان انتخابات کی تیاری شروع کریں۔

اجلاس میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف مقدمات درج کرنے کے لیے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حکم سے انکار کرنے والے سابق سربراہ ایف آئی اے بشیر میمن بھی شریک تھے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ عمران خان کے خلاف نئے کیسز کی کچھ فائلیں لائے ہیں تو بشیر میمن نے مسکراتے ہوئے کہا کہ نہیں یہ فائلیں کسی اور معاملے کی ہیں۔

اجلاس کے بعد سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ نواز شریف آئندہ الیکشن لڑنے کے لیے مکمل طور پر فٹ ہیں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ نواز شریف کی واپسی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں ہے، جب نواز شریف 2019 میں لندن گئے تھے تو وہ ’شدید بیمار‘ تھے لیکن اب ان کی طبیعت ٹھیک ہے۔

اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا مسلم لیگ (ن) اپنی ’بی ٹیم‘ آئی پی پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی، سعد رفیق نے جواب دیا کہ انتخابی اتحاد یا کسی بھی پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ پارٹی قیادت کرے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں