لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔
لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

بلوچستان کے معاملے کے علاوہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو پاکستان میں کسی کی سیاسی پوزیشن کو واضح کرتا ہو۔ گزشتہ بدھ کی رات یہ بات اس وقت مزید واضح ہوئی جب تربت سے اسلام آباد جانے والے پُرامن، غیر مسلح مظاہرین کے ایک قافلے کو وفاقی دارالحکومت میں داخلے سے جبری طور پر روک دیا گیا۔

پچھلے چند ہفتوں میں، بلوچ لانگ مارچ نے حقیقتاً ایک ہلچل پیدا کی ہے اور ہزاروں بلوچ خواتین، مردوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ ترقی پسند سیاسی کارکنوں، دیگر برادریوں سے تعلق رکھنے والے قوم پرستوں اور عام لوگوں کو بھی متحرک کیا ہے۔ نوجوان خواتین کی قیادت میں یہ قافلہ بلوچستان اور پھر سرائیکی، پختون اور پنجابی علاقوں سے گزرا۔ یہ جمہوری امنگوں کا سب سے زیادہ بامعنی اظہار تھا اور اس بات کا بھی کہ حالیہ دنوں میں ایک فیڈریشن کیسی ہوسکتی ہے۔ پھر یہ لوگ اسلام آباد کے مضافات میں پہنچ گئے۔

مارچ کرنے والوں کے مطالبات کافی سادہ ہیں، لیکن یہ ان کی سادگی ہی ہے جو ہم پر حکمرانی کرنے والوں کے لیے ناگوار ہے۔ مظاہرین کے مطالبات ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے گھناؤنے عمل کو ختم کیا جائے ’انکاؤنٹر کلنگ‘، جو ابتدائی طور پر تربت میں احتجاج کا سبب بنی، کا خاتمہ کیا جائے اور ان لوگوں کا احتساب ہو جو اس طرح کے تمام طریقوں میں ملوث ہیں۔ یہ بہت سادہ سے مطالبات ہیں جن کے مضمرات بہت گہرے ہوسکتے ہیں۔

ایسے مطالبات اٹھانا ممنوع کیوں ہے اور خاص طور پر بلوچ نوجوانوں کے لیے وہ کچھ بیان کرنا کیوں ممنوع ہے جو پاکستان میں تقریباً ہر کوئی پہلے ہی جانتا ہے یعنی کہ ریاست کے کچھ اہلکار ایسے ہیں جو اپنی مرضی کے مالک ہیں اور ان کا احتساب نہیں کیا جا سکتا۔

جس وقت لانگ مارچ جاری تھا اس وقت مرکزی دھارے کی جماعتیں بلوچستان کے الیکٹ ایبلز کو گھیرنے میں مصروف تھیں۔ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی تو سب کی نظروں میں تھے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے 8 فروری کے انتخابات کی تاریخ کی توثیق کرتے ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ آخرکار وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔

نگران وزیراعظم کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ لانگ مارچ کرنے والوں پر پر تشدد کریک ڈاؤن کے بعد بتایا گیا کہ انہوں نے فوری نوٹس لیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی حراست میں لیے گئے سیکڑوں افراد کی جانب سے درخواست دائر کرنے کے بعد کارروائی کی۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ بلوچوں کو بار بار ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کے بعد ہی ان کا برائے نام مداوا کیا جاتا ہے؟

زبیدہ مصطفیٰ نے گزشتہ ہفتے اس منظم جبر کے بارے میں لکھا تھا جس نے بنگالیوں میں مسلسل عدم اطمینان بڑھایا اور بالآخر بنگلہ دیش کی تخلیق کا باعث بنا۔ شاید ایسی باتیں لکھنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھا جائے، لیکن بلوچستان کا معاملہ یہ واضح کرتا ہے کہ نہ صرف کچھ سیکھا نہیں گیا بلکہ ریاست اب مزید عسکریت کا شکار ہے۔

درحقیقت، رواں ہفتے اسلام آباد کے مضافات میں نظر آنے والے مناظر نے شکوک و شبہات کا شکار افراد کو اس بات پر قائل کرنا مزید مشکل بنادیا ہے کہ ایک جمہوری وفاق اب بھی ممکن ہے جس میں بلوچ جیسی قومیں حقیقی شہریت رکھتی ہوں۔ یقینی طور پر ان لوگوں کے رویوں اور اعمال کو بیان کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے جو ہم پر پرانے زمانے کے نوآبادیاتی طریقوں سے حکمرانی کرتے ہیں۔

مارچ کرنے والوں کا مطالبہ تھا کہ انہیں وفاقی دارالحکومت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے اور انہیں اپنی بات کہنے دی جائے۔ ان کی زبان آگ بھڑکانے والی نہیں تھی یہ ایک درخواست تھی کہ انہیں سنا جائے۔ تاریخی ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے وہ یقینی طور پر بہت زیادہ توقعات کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان خواتین اور مائیں جو پیدل چل کر اس مقام تک پہنچیں جو وفاق کی علامت سمجھا جاتا ہے، صرف یہ کہہ رہی تھیں کہ انہیں پرامن احتجاجی کیمپ میں جانے کی اجازت دی جائے، ان پر لاٹھی چارج نہیں ہونا چاہیے تھا، ان پر واٹر کینن کا استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا اور پولیس وین میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔

ملک کے مرکزی دھارے کو بھی حالیہ مہینوں میں ان میں سے کچھ ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کو جو جیل میں بند سابق وزیر اعظم سے اپنی وفاداری کا عہد کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ جنہوں نے اب جبر کا تجربہ کیا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ ان کے ساتھ اتنا وحشیانہ سلوک کیوں کیا جا رہا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اب ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے جو بہت سے بلوچوں اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والوں کو ایک طویل عرصے تک برداشت کرنا پڑا۔ اس بات کو تسلیم کرنا واقعی ایک ایسی جمہوری جدوجہد کے امکانات کو بڑھانا ہے جس میں سب سے زیادہ مظلوم کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔

اسلام آباد داخلے پر لانگ مارچ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے اس مارچ کے راستے میں ہونے والے اظہارِ یکجہتی کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ کا احتساب وہ سیاست دان نہیں کریں گے جو اس کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں۔ واحد امید یہی ہے کہ تمام ترقی پسند اور وہ عام لوگ جو گمشدگیوں اور ’انکاؤنٹر‘ کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں سے اپنی نفرت کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں، یہ تسلیم کرلیں کہ یہ جدو جہد شاید اب بھی ایک منصفانہ اور جمہوری مستقبل کی طرف لے جائے۔


یہ مضمون 22 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں