بلیک مارکیٹ کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی جانب سے جمع شدہ غیر قانونی رقم ایک بار پھر پاکستان میں انتخابی عمل کے دوران استعمال میں لائی جا سکتی ہے اور اس کو جائز بنایا جاسکتا ہے۔

ایسی رقم کے استعمال سے سیاسی منظر نامہ دھندلا جائے گا جبکہ کمزور جمہوری عمل کی ساکھ اور شفافیت پر شکوک و شبہات پیدا ہونے کا امکان ہے۔

الیکشن کمیشن کا پولیٹیکل فنانس سیل اس رقم کی آمد کو روکنے کے لیے محدود قانونی راستے تلاش کر سکتا ہے جوکہ انتخابی نظام کی سالمیت کے حوالے سے چیلنجز پیدا کر سکتی ہے۔

اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات ایسے موضوع پر توجہ نہ دینا ہے جوکہ پاکستان میں جمہوریت کی سالمیت کو بنیادی طور پر تشکیل دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں انتخابات کی معاشیات پر منظم تحقیق یا مطالعہ نہ ہونا قابلِ فکر ہے۔ متعلقہ اعداد و شمار کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس معاملے پر ہونے والا صحافتی کام صرف سنی سنائی باتوں اور قیاس آرائیوں پر مشتمل ہے۔

کچھ شواہد اس تصور کی تائید کرتے ہیں کہ ایسی دولت، انتخابی نظام میں نامعلوم ذرائع سے شامل ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن آف پاکستان یا کسی دوسرے سرکاری ادارے یا سول سوسائٹی کے پلیٹ فارم کی جانب سے انتخابی مہم کی مالی اعانت کے لیے رقوم کی منتقلی پر نگرانی کم ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انتخابات کی معاشیات کو سمجھنے کے خواہشمند افراد کو غیر رسمی سروے اور بریفنگ کا سہارا لینا پڑتا ہے جبکہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ انٹرویوز بھی لیے جاتے ہیں تاکہ حقائق کا ادراک ہوسکے۔

اس رپورٹ کے لیے تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں بچت کے ذخیرے، بشمول بینک، سیونگ اسکیمز، پرائیویٹ فنڈ مینجمنٹ کمپنیاں، رئیل اسٹیٹ وغیرہ میں 2008ء کے بعد سے پانچ سالہ وقفوں سے آنے والے انتخابی مراحل کے دوران کوئی غیر معمولی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی۔

جبکہ انتخابی مہم میں پرنٹرز، پینٹرز، ایڈورٹائزرز، کیٹررز، ڈیکوریٹرز، ٹرانسپورٹرز، پرائیویٹ جیٹ آپریٹرز، سوشل میڈیا واریئرز، چینل آپریٹرز، کموڈٹی ڈیلرز، تنخواہ دار ورکرز وغیرہ سے خدمات حاصل کرنا شامل ہوتا ہے۔ یوں کافی رقم کا لین دین ہوتا ہے جس سے اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

اسٹیٹ بینک سے معلومات حاصل کرنے کی کوششیں بھی ناکام رہیں۔ نجی طور پر کچھ بینکرز نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور الیکشن کمیشن کی طرف سے کاغذات نامزدگی کو حتمی شکل دینے کے بعد اب یا 2018ء انتخابات میں بینکوں سے رقم نکالنے کی سطح میں کوئی خاص اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

سینٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز کے ڈائریکٹر جنرل حامد رضا خالد کا بیان بھی بینکرز کے مؤقف سے ملتا جلتا تھا۔ اسلام آباد سے فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’ہم نے انتخابات کے قریب بینکوں سے رقم نکلوانے کے رجحان میں اضافہ نہیں دیکھا‘۔

رئیلٹرز اور فنڈ آپریٹرز سے رابطہ ہوا تو انہوں نے مبہم بیانات دیے لیکن ان شعبہ جات میں سرگرم متعدد افراد کے تاثرات نے سست کاروبار کے ساتھ اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ شیئرز بیچنے والوں کے درمیان عجلت دیکھنے میں نہیں آرہی۔

اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے سی ای او احمد بلال محبوب نے اس موضوع پر گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور اس کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ انہوں نے اس موضوع پر تحقیق کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا اور انتخابات کے مالیاتی پہلوؤں کو کنٹرول کرنے والے قوانین میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے نیشنل کوآرڈینیٹر راشد چوہدری نے موقف اپنایا کہ ’نجی انتخابی اخراجات جس کا تخمینہ اربوں روپے میں ہے، اس کی منی ٹریل کا سراغ لگانے اور ٹریک کرنے کے طریقہ کار کی عدم موجودگی کے پیش نظر، یہ تاثر مضبوط ہے کہ یہ رقم نامعلوم ذرائع سے موصول ہورہی ہے۔

اگرچہ الیکشن ایکٹ وفاقی یا صوبائی سطح پر نشستیں حاصل کرنے کے خواہشمند امیدواروں کے لیے اخراجات کی حد متعین کرتا ہے لیکن اس سے نادانستہ طور پر قانونی فریم ورک میں خامیاں پیدا ہوتی ہیں جس سے وہ بغیر کسی خوف کے ان حدوں کو عبور کرلیتے ہیں۔

انتخابی قانون کے مطابق تمام امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت ایک علیحدہ انتخابی اکاؤنٹ کھولنے کا پابند کیا گیا ہے۔ تاہم اس اکاؤنٹ میں جمع کردہ فنڈز کے ذرائع کو ظاہر کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

قانونی طور پر قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑنے والا امیدوار ایک کروڑ روپے تک کی رقم انتخابی مہم میں خرچ کر سکتا ہے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار کے لیے 40 لاکھ روپے تک کی حد مقرر کی گئی ہے۔ تاہم الیکشن ایکٹ کا قانون مدمقابل آنے والے امیدواروں کو ان کے لیے دوسروں کی جانب سے کیے گئے تمام اخراجات کا حساب دینے کی ذمہ داری سے بری کرتا ہے۔

تصور کریں کہ قومی اسمبلی کی تمام 336 نشستوں کے امیدوار اخراجات کی حد کی پابندی کرتے ہیں اور فی حلقہ صرف تین امیدواروں ہوتے ہیں تو 1008 امیدواروں (336 کے تین گنا امیدوار) سے ایک کروڑ روپے کو ضرب دینے سے 10 ارب روپے کی حیران کُن رقم سامنے آتی ہے۔ اس وقت کل 22 ہزار 751 امیدوار قومی یا صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں مقاملے کے لیے میدان میں اتریں گے۔

انتخابات کی حتمی تاریخ قریب آرہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن مصروف ہے، شاید اسی لیے مالی شفافیت کویقینی بنانے اور ریگولیٹری خامیاں دور کرنے کے لیے وقت نہیں ملا۔ ان کے موقف کے لیے الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ سے رابطہ کرنے کے باوجود اس رپورٹ کو فائل کرتے وقت ان کا ردِعمل ہمیں نہیں مل سکا۔

اسلام آباد میں مقیم ڈیولپمنٹ پالیسی کے ماہر زبیر فیصل عباسی نے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے میں صاف گوئی سے کام لیا۔

اس معاملے پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’موجودہ قانونی ضابطوں کے تحت، فنڈنگ کے مختلف اور متنوع ذرائع کو درست طریقے سے شناخت کرنا انتہائی مشکل ہے، جب تک کہ اندر سے کوئی اس پر رپورٹنگ شروع نہ کرے۔ یہ نکتہ پاکستان میں ایک مخصوص سیاسی جماعت کے معاملے میں واضح ہوا جہاں مبینہ طور پر بے ضابطگیاں دیکھی گئیں۔

’الیکشن کمیشن کا پولیٹیکل فنانس سیل تمام امیدواروں سے مالی ریکارڈ اکٹھا کرتا ہے۔ اصل چیلنج اس حقیقت میں مضمر ہے کہ ہر کوئی اس کا سنجیدگی سے جواب نہیں دیتا اور شاید ہر جواب کی الیکشن کمیشن کی جانب سے مکمل جانچ نہیں کی جاتی۔ قواعد و ضوابط کو نافذ کرنے کے قانونی طریقہ کار اور فالو اپ اقدامات اب تک کافی حد تک غیر مؤثر رہے ہیں۔

’ایسا لگتا ہے کہ انتخابی مہم کے لیے رقوم کی منتقلی میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ’سن شائن رولز‘ کی ضرورت ہے۔ امیدواروں کی طرف سے جو رقم الیکشن کمیشن کو بتائی جاتی ہے اکثر انتخابی مہم کے دوران اس سے زیادہ اخراجات ہوتے ہیں۔ یہ ووٹرز کا حق ہے کہ وہ جانیں کہ کون کس کو اور کس مقصد کے لیے فنڈز فراہم کر رہا ہے‘۔


یہ مضمون 8 جنوری 2024ء کو ڈان بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں