یہ بات 1992ء کے دوران یا بعد کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ جس ٹیم کی جیت کے لیے پورے ملک نے ساری ساری رات دعائیں مانگی تھیں اس کامیاب ٹیم کا کپتان ہیرو سے ملزم اور پھر مجرم بن کر دس اور چودہ برس کی قید کاٹے گا۔

یہ تو درست ہے کہ اکثر مجرم اپنے جرم کا اعتراف ہی نہیں کرتے مگر جو شخص انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے، احتساب کرنے، مجرموں کو پکڑنے اور قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے میدان سیاست میں یکے بعد دیگرے ناکامیوں کے بعد اس قدر مقبول ہوا اور وزیر اعظم بن گیا اس پر بھی وہی الزامات عائد ہوں گے جن کے حوالوں سے وہ اقراری باغی اور مجرم بنا تھا، اس کو مکافات عمل کہا جائے، نصیب کا کھیل کہیں، قسمت کا فیصلہ قرار دیں یا پھر انتقامی کارروائی؟ بہرحال جو کچھ بھی ہونا تھا اور جو ہونا ہے اس کی دو اقساط تو ہمیں دیکھنے کو مل چکی ہیں۔ جو کچھ باقی ہے اگلے ہفتے عشرے میں سامنے آجائے گا۔

بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے وکلا کی خوب درگت بنائی اور خاص طور پر ان کی جو بار کونسلز میں ہڑتال، احتجاجی تحریک اور دباؤ ڈالنا چاہتے تھے۔ وہ سخت ناخوش ہیں اور کیوں نہ ہوں لطیف کھوسہ اسمبلی کا الیکشن لڑیں یا مقدمہ اور پھر بشریٰ بی بی اور لطیف کھوسہ کی مبینہ کال کی ریکارڈنگ بھی منظرعام پر آچکی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یحییٰ بختیار جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کا زیر دفعہ 302 کا مقدمہ 302 کے ذکر کے بغیر لڑرہے تھے اب بھی وکلا اسی روایت کو زندہ رکھ گئے ہیں۔

وکیل اپنے وقت اور مشوروں کی فیس لیتا ہے، بہت کم ہوتے ہیں جو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں چھوڑ کر کوئی اور کام بالخصوص سیاسی کام کریں۔ یا ان کا مؤکل ہارے گا یا وہ خود ہاریں گے۔ مؤکل تو قید ہوکر ہار گیا اور ان کی جیت بھی کامل یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی۔

بے یقینی سے دوچار انتخابات اب تو ہر صورت ہونے کو ہیں، سیاسی جماعتیں کمر کس چکی ہیں، قرائن بتاتے ہیں کہ کس کی حکومت بنے گی مگر یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اصول کے پابند امیدواروں سے زیادہ تعداد میں آزاد امیدوار جیت جائیں گے۔ ان کی منزل کیا ہوگی؟

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایک بار پھر انٹرا پارٹی انتخابات کی طرف جارہی ہے۔ یہ سفر بھی میرے نزدیک بےکار ثابت ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ہاں 2029ء کے انتخابات تک کچھ بچا تو کام آجائے گا بصورت دیگر اقتدار کی چکا چوند اور طاقت اور پھر اس کا استعمال پوری انسانی شخصیت کو تہہ و بالا کردیتا ہے۔ مزاج بدل جاتے ہیں، طور طریقے اپنا رنگ چھوڑ دیتے ہیں۔ طاقت کا نشہ کسی بھی نشے سے بڑھ کر ہوا کرتا ہے۔ ایوان اقتدار کے اپنے انداز اور بھول بھلیاں ہوا کرتی ہیں۔ اکثر ان راہوں میں گم ہوجاتے ہیں اور سیاسی وارث تلاش گمشدہ کے اشتہار لگاتے رہتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی تنظیم تو بکھر چکی ہے ووٹر باقی ہے مگر ووٹر پارٹی کارکن نہیں ہوتا۔ تعطیلات کے دوران انٹرنیٹ کے ذریعے نامزدگی، اسکروٹنی، جس کے کاغذات نامنظور ہوئے اس کی سنوائی کس فورم پر ہوگی؟ عہدے دار بننے والے قومی انتخابات لڑیں گے یا اسلام آباد آکر اپنے مؤقف کے بارے میں آگاہ کریں گے۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہو ہی نہ سکیں اور اگر رسمی کارروائی کر بھی لی جائے تو بہت سے اعتراضات پھر قابل سماعت ہوں گے۔ فیصلہ تو ووٹر کو کرنا ہے تاہم حکومت تو پی ٹی آئی کی بنتی ابھی نظر نہیں آرہی، تو لڑائی کس بات کی ہے؟ یقیناً خواتین اور مخصوص اقلیتی نشستوں کی ہوگی۔

جن خواتین کے نامزدگی کے کاغذات مسترد ہوچکے ہوں ان کی بحالی کا راستہ الیکشن ٹریبیونل ہی ہوا کرتا ہے۔ شومئی قسمت کہ ان کا بھی وقت گزر چکا ہے، ہاں آئین کی دفعہ 199 کے تحت صورت بن سکتی ہے اگر اسٹامپ پیپر پر کچھ لوگوں نے اپنی کامیابی اور مستقبل کے حوالے سے دستخط نہ کیے ہوں۔

پھر یہ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخاب لڑنے کے لیے انتخابات کے انعقاد سے قبل انتخابی نشان الاٹ کرتا ہے۔ انتخابی نشان الاٹ شدہ جماعتوں کی رضامندی سے منتخب آزاد ارکان، سرکاری اعلان کے تین روز کے اندر اندر الیکشن کمیشن کو اپناحلف نامہ داخل کروا کے مذکورہ جماعت کے پارلیمانی گروپ میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں اور یہ عمل ناقابل واپسی عمل ہوا کرتا ہے۔

پہلے اس بات کا ذکر ہوا کہ آزاد امیدوار جماعتی امیدواروں سے زیادہ تعداد میں جیت جائیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1970ء سے 2018ء تک ہونے والے انتخابات میں آزاد امیدوار انتخابی معرکہ ازخود جیت لیتے تھے۔ 1988ء کے انتخابات نہایت کشیدگی، تناؤ اور سیاسی کشمکش میں ہوئے تھے، پورا ملک سیاسی تفریق کا شکار تھا مگر کئی جماعتوں کے ارکان سے زائد 40 قومی اسمبلی کی نشستیں آزاد امیدوار جیت گئے تھے۔

1970ء میں بھی ایسا تھا، 2008ء میں 29 آزاد ارکان تھے، 2013ء میں 27 آزاد ارکان تھے اور 2018ء میں 12 ایسے منتخب ارکان تھے۔ اب تو کوئی 200 آزاد امیدوار خود کو سیاسی جماعت کا امیدوار کہتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی 2018ء میں 118 جنرل نشستیں جیتی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جب دوتہائی اکثریت حاصل کی تو 135 نشستوں پر جیتی تھی اور 2013 میں انہوں نے 129 نشستوں کے ساتھ حکومت بنائی تھی۔ پیپلزپارٹی نے صرف 91 جنرل نشستوں پر جیت کر 2008ء میں حکومت بنالی تھی۔

اگر پی ٹی آئی 118 نشستوں میں سے اب پھر مثال دینے کے لیے 40 آزاد ارکان نکال دیں تو 78 ارکان ہی آزاد جیت سکتے ہیں جس کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اشتہاری مہم ہے نہ میڈیا پر کوئی خبر و اشتہار نہ پروگرام، نہ جلسہ جلوس، نہ امیدوار، نہ کیمپ، نہ ورکر، نہ زور و شور، نہ کوئی یکساں پروگرام۔

فروری ہی میں صدر مملکت کے انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہوجائے گا غالباً مارچ کے پہلے ہفتے میں نئے صدر منتخب ہوں گے۔ اسی طرح چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے بھی مارچ کی دس گیارہ تاریخ کو خالی ہوں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بھی نئے منتخب ہوں گے۔ پی ٹی آئی اپنی غیر دانشمندانہ روش کی بنا پر ان میں کسی کو بھی منتخب نہ کرواسکے گی کیونکہ قومی وصوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر ان کا حصہ نہ ہوگا اور صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے نہ ہونے کی بنا پر سینیٹرز کا انتخاب بھی پی ٹی آئی کے لیے آسان نہ ہوگا۔ صدر تو یقیناً پی ٹی آئی سے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

ایسے میں ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہمارا نمائندہ ہمارے مسائل جن میں ہمارا تشخص، مستقبل، تعلیم، صحت، بیرونی قرضے، معیشت کی بحالی ، اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک، لسانی جھگڑے، دہشت گردی، ظلم کا خاتمہ رواداری کے فروغ، برداشت اور تحمل اور ہماری عورتوں کی عزت کی رکھوالی شامل ہے ان کے حل کے لیے کچھ کرسکیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں