ووٹرز کے لیے 8 فروری کیسا رہا؟

09 فروری 2024
کوئتہ کے پولنگ اسٹیشن کے باہر قطار میں لوگ اپنے باری کا انتظار کررہے ہیں—تصویر: پی پی آئی
کوئتہ کے پولنگ اسٹیشن کے باہر قطار میں لوگ اپنے باری کا انتظار کررہے ہیں—تصویر: پی پی آئی

کیا انتخابات پُرامن رہے؟ ٹرن آؤٹ کیسا رہا؟ کیا پولنگ وقت پر شروع ہوئی؟ کیا بدانتظامیوں کی شکایات آئیں؟ پولنگ اسٹیشنز کی صورت حال کیسی رہی؟ ملک میں اپنے حامیوں کو متحرک کرنے میں سب سے زیادہ سرگرم جماعت کون سی تھی؟

مختلف لوگوں سے آپ کو ان کے مختلف جوابات ملیں گے خاص طور پر ان کے اپنے علاقوں کے حوالے سے، ان کے جوابات اپنے علاقے سے متعلق ہوں گے۔ جمعرات کی صبح 8 بجے پاکستان میں پولنگ کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد اگلے 9 گھنٹوں تک پولنگ کے پُرامن یا اس میں رکاوٹوں کے حوالے سے متعدد واقعات سامنے آئے۔

آپ خوش قسمت رہے تو آپ چند منٹوں میں ہی پولنگ اسٹیشن سے فارغ ہوگئے ہوں گے۔ لیکن اگر آپ بدقسمت لوگوں میں شامل تھے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے پولنگ اسٹیشن میں پولنگ کا آغاز سہہ پہر 3 بجے تک بھی نہیں ہوا ہو۔

اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) پولنگ لسٹوں میں آپ کے خاندان کا ڈیٹا درج کرتے وقت مستعد ہوتا تو آپ کو اپنے پورے خاندان کا ووٹ ایک ہی اسٹیشن پر مل جاتا۔ بصورت دیگر قریبی پولنگ اسٹیشن میں والد کا ووٹ تو ہوسکتا ہے لیکن بیٹے کا نہیں ہوگا۔ پھر آپ ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن تک اپنے ووٹ کی تلاش میں بھاگتے پھر رہے ہوں گے۔

نہیں! آپ اپنا پولنگ اسٹیشن جاننے کے لیے شناختی کارڈ نمبر 8300 پر نہیں بھیج سکتے کیونکہ صبح آپ کے بیدار ہونے سے پہلے ہی حکام بالا نے موبائل فون سروسز بند کردی تھیں۔

ووٹرز کے تجربات

ملک میں کسی بھی کام میں تکلیفیں اور رکاوٹیں ضرور ہوتی ہیں کیونکہ بغیر رکاوٹ ہونے والا کام اور پاکستان دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

ایسے علاقوں میں جہاں ووٹنگ کے عمل میں دانستہ یا غیر دانستہ رکاوٹیں نہیں ڈالی گئیں تھیں وہاں کم ٹرن آؤٹ، بے تحاشا مایوسی اور متحرک کوششوں کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے اپنے جمہوری حق کو استعمال کرنے کی زحمت نہیں کی۔

پاکستان میں انتخابات ایک جوش و خروش اور تہوار کا نام ہیں۔ لیکن یہ عناصر جمعرات کو نظر نہیں آئے۔ بالکل اسی طرح انتخابات کے بعد کسی بھی واضح تبدیلی کے حوالے سے ووٹرز میں جوش و خروش بھی نہیں تھا۔ بوڑھے اور نوجوان شہریوں نے ڈان کو بتایا کہ اس الیکشن سے ان کی امیدیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ وہ مایوس تھے اور انہیں ووٹ دینے کے قابل کوئی نمائندہ نہیں ملا۔ لیکن اس کے باوجود کئی لوگ پولنگ اسٹیشنز پر پہنچے اور اپنا حق رائے دہی کا استعمال کیا۔

لاہور کے کچھ علاقوں بالخصوص جہاں سے مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما کھڑے ہوئے تھے، وہاں پارٹی نے ووٹرز کو کھانے اور ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی۔ کراچی کے ایسے علاقوں میں جہاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) مضبوط پوزیشن میں تھی وہاں پارٹی نے ووٹرز کو راغب کرنے کے لیے کچھ اسی طرح کے اقدامات کیے۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تو پولنگ کی صورتحال بالکل مختلف تھی۔ جبکہ بلوچستان میں ووٹنگ کی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہوتی رہیں جس کی وجہ سے حلقوں کی صورتحال تبدیل ہوئی۔ خیبرپختونخوا میں سیاسی جماعتیں ووٹرز کی بڑی تعداد کو باہر لانے میں ناکام رہیں۔ ٹرن آؤٹ کم رہا کیونکہ دونوں صوبے پُرتشدد حملوں کی زد میں رہے۔

خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم ہونے اور مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے بعد یہ قبائلی علاقوں کے رہائشیوں کے پہلے انتخابات تھے۔ ٹرن آؤٹ ضرور کم رہا لیکن چند علاقوں میں پُرتشدد واقعات کی رپورٹ موصول ہونے کے علاوہ بیشتر مقامات پر پولنگ پُرامن رہی۔

ووٹرز کو پریشانی

بڑی تعداد میں لوگوں نے پولنگ اسٹیشن پہنچ کر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا—تصویر: رائٹرز
بڑی تعداد میں لوگوں نے پولنگ اسٹیشن پہنچ کر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا—تصویر: رائٹرز

پورے ملک میں جذبات اور ٹرن آؤٹ تو مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ایک چیز جو پورے ملک میں یکساں تھی وہ تھے انتظامی مسائل۔

بہت سے لوگوں نے 8300 کے ذریعے اپنی ووٹنگ تفصیلات کی تصدیق نہیں کی تھی۔ تصدیق نہ ہوپانے کے بعد وہ پھر پولنگ اسٹیشنز کے باہر لگے کیمپوں پر سیاسی جماعتوں کے ایجنٹس کی ہاتھوں سے لکھی ہوئی پرچیوں پر منحصر ہوگئے۔ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں لیے وہ پولنگ بوتھ تک پہنچے لیکن وہ ووٹ نہیں ڈال سکتے تھے کیونکہ ان کا نام تو فہرست میں ہی شامل نہیں ہے۔

کراچی میں رپورٹ ہونے والی چند شکایات کے مطابق پولنگ اسٹاف جان بوجھ کر لوگوں کو گمراہ کرتے رہے کہ ان کا ووٹ اس علاقے میں رجسٹرڈ نہیں۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر علاقوں سے یہ بھی اطلاعات آئیں کہ ایک گھرانے کے لوگوں کا ووٹ شہر کے مختلف علاقوں منتقل کردیا گیا تھا۔

ایسا تھا کہ آپ ووٹ دینا چاہتے ہیں تو 272.89 فی لیٹر پٹرول کی قیمت پر دوردراز علاقے میں جانا ہوگا۔ تو ایسے میں آپ کس کا انتخاب کریں گے؟

پولنگ اسٹیشنز میں ووٹرز کی رہنمائی کے لیے واضح ہدایات کی شدید کمی تھی۔ کراچی کے اسکولز میں قائم پولنگ اسٹیشنز میں عموماً پہلی اور دوسری منزل پر بوتھ ہوتے ہیں، ووٹرز، خصوصاً بزرگ ووٹرز کو سیڑھیاں چڑھنی پڑیں اور جب وہ اوپر پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا ووٹ تو اگلی عمارت میں ہے۔

یہ سیکیورٹی اہلکاروں اور پریزائیڈنگ افسر کی ذمہ داری تھی کہ وہ لوگوں کی رہنمائی کرتے اور انہیں درست پولنگ بوتھ پر بھیجتے۔ کراچی میں پولنگ عملے میں تربیت کی کمی کی شکایات بھی موصول ہوئیں۔ تاہم پنجاب اور اسلام آباد میں پولنگ عملہ لوگوں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی سہولت فراہم کرتے پائے گئے۔

پولنگ اسٹیشنز پر صورتحال

اس کے باوجود ملک بھر سے لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکلے۔ کچھ پولنگ اسٹیشنز پر صبح 8 بجے سے ہی قطاریں لگ گئی تھیں جبکہ دیگر علاقوں میں دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ووٹرز کے رش میں اضافہ ہوتا گیا۔ لاہور اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں مردوں سے زیادہ خواتین کی پولنگ میں متحرک شرکت کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

خستہ حال سرکاری اسکولز کا پولنگ اسٹیشنز میں تبدیل ہونا خود ہر سیاسی جماعت کو مسترد کرنے کا جواز بنا۔ گندے بیت الخلا اور بے ترتیب کلاس رومز نے ووٹروں پر ایک ناگوار تاثر چھوڑا۔

سندھ اور پنجاب میں پولنگ اسٹیشنز میں کمروں کی شدید قلت تھی کیونکہ وہاں دو سے تین پولنگ اسٹیشنز ایک اسکول میں بنائے گئے تھے۔ ایسا مجبوری میں کیا گیا کیونکہ الیکشن کمیشن کے پاس ووٹرز کی آبادی کے تناسب سے کم از کم ایک لاکھ 50 ہزار پولنگ اسٹیشنز کی کمی تھی۔

نتیجتاً لوگوں کو گھنٹوں قطار میں انتظار کرنا پڑا۔ سچ پوچھیے تو یہ ان کی سست رفتار کا نتیجہ تھا۔ ایسے علاقوں میں جہاں پولنگ کا آغاز وقت پر ہوا، وہاں پولنگ عملے نے گھنٹوں ووٹرز کی آمد کا انتظار کیا۔ شہری تعطیل کے روز دوپہر میں حلوہ پوری اور نان چنے کا ناشتہ کرکے گھروں سے ووٹ ڈالنے نکلے۔

جبکہ اس کے برعکس چند پولنگ اسٹیشنز پر فرض شناس شہری صبح 8 بجے ہی ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ کراچی کے ایک پولنگ اسٹیشن کے پریزائیڈنگ افسر نے ڈان کو بتایا کہ قطار کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کی عدم موجودگی میں پولنگ کے عمل کا آغاز ہوا۔

وقفے وقفے سے ملک کے مختلف حصوں سے پولنگ اسٹیشنز پر حملوں، تصادم اور ہنگامہ آرائی کی شکایات موصول ہوئیں لیکن ان واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر 8 بجے سے 5 بجے تک پولنگ کا عمل پُرسکون انداز میں جاری رہا۔

معذور افراد کے لیے کوئی سہولیات نہ تھیں

زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز میں معذور افراد کو وہیل چیئرز پر سیرھیاں چڑھوائی گئیں—تصویر: رائٹرز
زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز میں معذور افراد کو وہیل چیئرز پر سیرھیاں چڑھوائی گئیں—تصویر: رائٹرز

الیکشن کمیشن کی جانب سے معذور افراد کو قابلِ ذکر سہولیات نہیں دی گئیں۔ پولنگ اسٹیشنز پر اونچی سیڑھیاں تھیں جنہیں چڑھ کر وہ اپنے متعلقہ پولنگ بوتھ پہنچے۔

ملک بھر کے پولنگ اسٹیشنز میں معذور افراد کی سہولت کے لیے خصوصی انتظامات کا فقدان تھا۔ سیڑھیوں کی موجودگی کا مطلب یہ تھا کہ وہیل چیئرز پر سوار لوگوں کو ریمپ فراہم نہیں کیے گئے۔ چونکہ پولنگ اسٹیشنز اسکولز میں قائم کیے گئے تھے اسی لیے وہاں لفٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تنگ راہداریوں اور چھوٹ چھوٹے پولنگ بوتھس نے معذور افراد اور بزرگ شہریوں کی نقل و حرکت کو مزید محدود کردیا۔

لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود وہ پولنگ اسٹیشن آئے، کسی کی مدد ان کے گھر والوں نے کی اور کچھ کو وہیل چیئر سمیت اٹھا کر سیڑھیاں چڑھوائی گئیں۔ نابینا ووٹرز کے لیے کوئی خصوصی بیلٹ پیپز تھے اور نہ ہی سماعت سے محروم افراد کے لیے خصوصی تحریری اشارے تھے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں