پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا۔

خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر درخواست پر سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے کی، جس میں جسٹس اعجاز انور، جسٹس عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہنمد اور سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر پشاور ہائی کورٹ پہنچ گئے۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کچھ سوال لارجر بینچ نے چھوڑے ہیں، جس پر عدالت کو اسسٹٹ کرنے کوشش کروں گا، الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان چھینا اور اسی عدالت نے واپس بحال کر دیا۔

علی ظفر نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے اس عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کےحمایت یافتہ امیدوار سامنے آئے، تمام ارکان پی ٹی آئی کے چھتری تلے پاس ہوئے، پھر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں 86، پنجاب اسمبلی میں107، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 90، سندھ اسمبلی میں 9، بلوچستان میں ایک ممبر نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا۔

’سنی اتحاد کونسل آرٹیکل 106 (تھری) (ایم) کے تحت مخصوص نشستوں کی اہل‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل آرٹیکل 106 (تھری) (ایم) کے تحت مخصوص نشستوں کی اہل ہے، سنی اتحاد کونسل کے خلاف 6مختلف درخواستیں سامنے آئیں، جس میں تین موقف اختیار کئے گئے۔

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اعتراض یہ تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، مخصوص نشستوں کی لسٹ فراہم نہیں کی، الیکشن کمیشن کو بتایا گیا، سنی اتحاد کونسل کو سیٹیں نہ دی جائیں، باقی دیگر پارٹیوں کو مخصوص نشستیں دی جائیں۔

جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ ہم کیس خیبرپختونخوا کی حد تک سن رہے ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ کیس قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی تک محدود ہے۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں قبضہ گروپس کو دی گئیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ قبضہ گروپس نہ کہیں، ان کو سیٹیں تو الیکشن کمیشن نے دی ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کل سوال آیا کہ کیا قومی اسمبلی نشستوں پر اس کورٹ کا اختیار بنتا ہے؟ اس پر بات کرنا چاہتا ہوں، 6 سوالات ہیں جو عدالت نے اٹھائے وہ بہت اہم ہیں۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ سوال آیا کہ سیاسی پارٹی کیا، میرے خیال میں سیاسی جماعت وہ ہے، جو ان لسٹ ہے، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 210 اور 202 میں سیاسی پارٹی کا ذکر موجود ہے، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا لیکن یہ ضروری نہیں، بائیکاٹ بھی الیکشن کا حصہ ہوتا ہے۔

عدالت نے پوچھا کہ آپ کا کہنا ہے کہ اگر ایک پارٹی الیکشن نہ لڑے تو پھر پولیٹیکل پارٹی ہوتی؟ پولیٹیکل پارٹی تو سیٹیں جیتنے کے لیے الیکشن میں حصہ لیتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے پاس انتخابی نشان ہے اور الیکشن لڑنے کا اختیار ہے، آئین میں پولیٹیکل جسٹس کا ذکر واضح لکھا گیا ہے، ہر وہ شہری جو سرکاری ملازم نہ ہو وہ سیاسی جماعت بناسکتا ہے یا کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 72 کہتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کئی حقوق حاصل ہیں، سیاسی پارٹیاں الیکشن میں حصہ لے سکتی ہیں، حکومت بنا سکتی ہیں، مخصوص نشستیں حاصل کرسکتی ہیں۔

جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ اگر انتخابات میں حصہ نہیں لیتے پھر کیا ہوگا، میں پہلے اس پر بات کررہا ہوں کہ میں سیاسی جماعت ہوں، اگر میں سیاسی جماعت ہوں تو میرے بنیادی آئینی حقوق کیا ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 17 کے تحت میرے کئی بنیادی حقوق بنتے ہیں، الیکشن کمیشن پارلیمانی پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرنے میں کنفیوز ہے۔

دوران دلائل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے پانی پینے کی اجازت مانگ لی، عدالت کا کہنا تھا کہ آپ مسافر ہیں اور مسافر کو پانی پینے کی اجازت دیتے ہیں، جس پر علی ظفر نے کہا کہ گلا خراب ہے، پانی نہیں لوں گا، تو گلا بند ہو جائے گا، عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو پانی پینے کی اجازت دے دی۔

جسٹس اشتیاق نے لائٹ موڈ میں ریمارکس دیے کہ شعبان کا کیس رمضان میں لے کر آئے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل پولیٹیکل پارٹی کیسے بنی؟ پارٹی نے جنرل الیکشن میں کوئی سیٹ نہیں جیتی، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل نےالیکشن میں حصہ نہیں لیا کوئی سیٹ نہیں لی، بطور سیاسی پارٹی موجود ہے۔

مزید دلائل دیے کہ اگر کسی پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، 10 آزاد امیدوار اس پارٹی میں آجاتے ہیں تو تعداد 10 ہی ہوگی، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کے پاس ایک سیٹ بھی نہیں تو آپ کو آزاد امیدوار جوائن نہیں کرسکتے۔

’آئین میں پابندی نہیں کہ پولیٹیکل پارٹی سیٹ جیتے یا نہیں‘

عدالت نے مزید کہا کہ پولیٹیکل پارٹی انتخابات میں حصہ لے گی اس میں جیت کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین میں یہ پابندی نہیں کہ پولیٹیکل پارٹی سیٹ جیتے یا نہ جیتے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوکر پی ٹی آئی کا کیس کمزور نہیں کیا؟ وکیل علی ظفر نے بتایا کہ اس کی 2 وجوہات تھیں، ہمارے پاس انتخابی نشان نہیں تھا ،الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات پر پی ٹی آئی کو ڈس کوالیفائی کیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جس نے جتنی سیٹیں جیتیں، ان کو اس تناسب سے سیٹیں ملتی ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان کی سیٹیں بڑھا دی جائیں، جس پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ سیٹیں نہیں دی گئی تو پارلیمنٹ پوری نہیں ہوگی۔

’آئین کی ایسی تشریح کریں کہ خلا پیدا نہ ہو‘

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ آپ آئین کی ایسی تشریح کریں کہ یہ خلا پیدا نہ ہو، مزید کہا کہ یہ کہیں نہیں لکھا کہ آپ لسٹ دوبارہ نہیں دیں سکتے، یہ دوسرا شیڈول بھی جاری کر سکتے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ عام انتخابات کا بھی انہوں سیکنڈ شیڈول جاری کیا ہے، یہ کہنا کہ آپ لسٹ اب نہیں دے سکتے، یہ غلط ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو پارٹیاں الیکشن میں حصہ نہیں لیتی ان کا حق نہیں بنتا، زیرو کے ساتھ جو بھی جمع کریں وہ زیرو ہی ہوتا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ لسٹ کب دینی ہے، بہتر سمجھ یہ ہوگی کے انتخابات کے بعد مخصوص نشستوں کا الیکشن شیڈول آجائے۔

انہوں نے دلائل دیے کہ سیکشن 104 کہتا ہے کہ ایک دن مخصوص ہوگا، یہ نہیں کب ہوگا، دوسری لسٹ پر کوئی پابندی نہیں کہ آپ لسٹ نہیں دے سکتے، 104 سیکشن ہم سے ہمارا آئینی حقوق نہیں چھین رہا۔

بیرسٹر علی ظفر نے سوال اٹھایا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے میں الیکشن کمیشن کو کیا مسئلہ ہے، مخصوص نشستیں دینے میں کونسی قانون کی خلاف ورزی ہو جائے گی؟

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ اور نہ ہی کم، ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بھی دلائل مکمل کرلیے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آگئے۔

سکندر بشیر مہمند نے مؤقف اپنایا کہ یہ درخواستیں تمام اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے لیے ہیں، جو اس عدالت کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہیں، مزید کہا کہ سندھ ہائی کورٹ میں درخواستیں ان درخواستوں کے سے مماثلت رکھتی ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے استدعا کی کہ تمام درخواستوں میں ایک ہی درخواست گزار ہے، درخواستوں میں ایک ہی پیٹرن کو فالو کیا گیا ہے، مزید کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی لارجر بینچ کے لیے استدعا کی گئی ہے۔

جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ پہلی درخواست ہمارے سامنے موجود ہے، دیگر صوبوں کے ہائی کورٹ اپنے فیصلے دیں گے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے علاوہ وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر مہمند کے دلائل بھی مکمل ہو گئے، گزشتہ روز الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور دیگر پارٹیوں کے وکلا کے دلائل مکمل ہو گئے تھے۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مبشر منظور کا کہنا تھا کہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا تو پھر وہ پارلیمنٹری پارٹی بن گئی ہے۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پولیٹکل پارٹی کی تعریف یہ ہے کہ اس نے الیکشن میں حصہ لیا ہو، یہ نہیں ہے کہ اس الیکشن میں ہوں اگر 2018 میں بھی حصہ لیا تو پھر بھی وہ پولیٹکل پارٹی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ سے تو صرف مخصوص نشستیں لی گئی ہیں، باقی حقوق تو آپ کے ہیں، وہ نہیں لیے گئے۔

تمام وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، ایک بجے سنایا جائے گا۔

بعد ازاں، عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کردیا۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم کی زیرصدارت 5 رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ سنایا۔

سنی اتحاد کونسل کی متوقع خواتین امیدواروں صائمہ خالد اور عاصمہ کاکاخیل نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سنی اتحاد کی خواتین کے حقوق کا نہیں بلکہ تمام خواتین کا مسئلہ ہے۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے خواتین کے لیے 20 مخصوص نشستیں اور تین اقلیتی نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے سے انکار کردیا تھا، پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ قومی اسمبلی کی تمام بقیہ مخصوص نشستوں اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستوں پر لاگو ہوا۔

جس کے بعد 7 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے خلاف دائر درخواست پر منتخب ارکان کو حلف اٹھانے سے روکنے کے حکم میں 13 مارچ تک توسیع کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں